کامیڈی کے انداز پر تنقید، ذاکر خان کا جاوید اختر کو جواب
بھارت کے معروف کامیڈین ذاکر خان نے بولی وُڈ کی لیجنڈری شخصیت جاوید اختر کی اپنے پیشے پر کی جانے والی تنقید پر معتدل انداز میں جواب دیا ہے، جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا۔
جاوید اختر کی مفتی شمائل کے ساتھ وجودِ خدا کے موضوع پر مناظرے کی گرد ابھی چھٹی نہیں تھی کہ ذاکر خان کے بیان نے انہیں ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا دیا۔
حالیہ ہفتوں میں کئی کامیڈینز کے کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے، تنقید بڑھی اور بعض کو وضاحتیں یا معذرتیں بھی کرنا پڑیں۔ اسی تناظر میں کامیڈین سمے رائنا کے ایک آن لائن شو پر ہونے والی تنقید نے بحث کو مزید تیز کر دیا۔
اس معاملے پر مختلف شخصیات نے اپنی رائے دی، کچھ نے بدلتے ہوئے ذوقِ مزاح کا دفاع کیا، جبکہ دوسرے حلقوں نے اس رجحان کو تخلیقی کمزوری سے جوڑتے ہوئے ناپسندیدگی ظاہر کی۔
انہی ناقدین میں ممتاز شاعر، نغمہ نگار اور اسکرین رائٹر جاوید اختر بھی شامل ہیں، جن کا شمار بھارتی سنیما کے معتبر ترین تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔
جاوید اختر نے گزشتہ سال ایک عوامی نشست میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ بعض اوقات گالی یا سخت زبان کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب گفتگو میں وزن یا ذہانت کم ہو۔
جاوید اختر کے مطابق جیسے پھیکے کھانے میں ’مرچ‘ ذائقہ بڑھانے کے لیے ڈالی جاتی ہے، ویسے ہی زبان میں بے جا تلخی یا گالی کو بعض لوگ مواد میں جان ڈالنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر گفتگو میں ذہانت، شائستگی اور برجستگی ہو تو ایسے سہاروں کی ضرورت نہیں رہتی۔
معروف اسٹینڈ اپ کامیڈین ذاکر خان سے جب سے جاوید اختر کے اس بیان پر رائے مانگی گئی تو انہوں نے متوازن ردِعمل دیا۔
’دی انڈین ایکسپریس‘ کے پروگرام ’ایکسپریس اڈا‘ میں 20 دسمبر کو گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جاوید اختر کے قد اور علمی مقام کا اعتراف کیا اور کہا کہ جس تہذیبی اور ادبی روایت کی نمائندگی وہ کرتے ہیں، اس پس منظر میں ان کی تنقید کو سمجھا اور تسلیم کیا جانا چاہیے۔
تاہم ذاکر خان نے بات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا اورکہا کہ ضروری نہیں ہر فنکار ایک ہی اصول پر چلے۔ زبان اور اظہار ہر شخص کے ماحول، تجربے اور عمر کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اگر کسی کی روزمرہ بول چال میں سخت الفاظ شامل ہیں تو اسے یکسر روکا نہیں جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ بہت سے لوگ خود سیکھتے ہیں، نرمی اختیار کرتے ہیں اور اپنی حدیں متعین کر لیتے ہیں۔ لیکن کسی ایک اندازِِ اظہار کو بنیاد بنا کر انگلی اٹھانا یا فیصلے صادر کرنا درست نہیں۔
















