Aaj News

جمعرات, اپريل 18, 2024  
09 Shawwal 1445  

یہودی اسرائیل کیسے لائے گئے؟

ایندھن دکھانے والی سُوئی نیچے سے نیچے جاتی گئی، اس وقت وہ مصر کے...
شائع 06 اگست 2020 12:12pm

ایندھن دکھانے والی سُوئی نیچے سے نیچے جاتی گئی، اس وقت وہ مصر کے اوپر تھے، ایندھن نہ ڈلوایا جاتا تو جہاز گر سکتا تھا۔

پائلٹ ایک خفیہ مشن پر تھا۔ اس کے جہاز میں ڈیڑھ سو یہودی سوار تھے جو یمن سے اٹھائے گئے اور اسرائیل لے جائے جا رہے تھے۔ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان سخت کشیدگی تھی، فسادات ہو رہے تھے، جن میں کئی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ اس لیے جہاز اترنے کے بعد لوگوں کو پتہ چلتا کہ وہ یہودی ہیں تو کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن پھر بھی پائلٹ نے اترنے کا فیصلہ کیا۔

انتظامیہ سے رابطہ ہو چکا تھا کہ صرف ایندھن لینا ہے۔ جیسے ہی جہاز اترا ایئرپورٹ حکام جہاز کی چیکنگ کے لیے آئے تو پائلٹ نے کہا مسافروں کو ہسپتال پہنچاؤ۔

کیوں؟ کے جواب میں کہا کہ یہ سارے چیچک کے مریض ہیں اور علاج کے لیے لے جائے جا رہے ہیں۔ ان دنوں یہ مرض ایک عفریت کی مانند پھیلا ہوا تھا، لوگ اس سے خوفزدہ تھے، اس لیے انتظامیہ نے مسافروں سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی اور جلدی سے ایندھن دے کر روانہ کر دیا کہ کہیں جراثیم نہ پھیل جائیں۔

یہ تھا ’آپریشن میجک کارپٹ‘ کے بے شمار سنسنی خیز واقعات میں سے ایک واقعہ اور پائلٹ تھے امریکہ کے رابرٹ ایف ایگوائر، جو آپریشن کے چیف تھے۔

یہودیوں کے تحفظ کا منصوبہ

1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت قریباً دس لاکھ یہودی مشرق وسطیٰ، افریقی اور عرب ممالک میں مختلف مقامات پر موجود تھے، جن کو کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس سے قبل 1947 میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کو یہودی اور عرب ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو دیگر مقامات پر موجود یہودی غیر محفوظ ہو گئے۔

چند ماہ بعد صورت حال اس وقت مزید بگڑ گئی جب یمن میں دو مسلمان لڑکیوں کو قتل کیا گیا اور الزام یہودیوں پر لگا۔ پھر فسادات شروع ہو گئے اور یہودیوں پر حملے ہونے لگے۔ جس پر امریکی اور اسرائیلی حکومتوں نے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے مالی تعاون امریکن جیوئش جوائنٹ ڈسٹری بیوشن کمیٹی نے فراہم کیا۔

منصوبے کو حتمی شکل دینے کے بعد امریکی و اسرائیلی حکام نے یمن کے شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس شرط پر یہودی لے جانے کی اجازت دے دی کہ ان کو لے جانے والے جہاز یمن کی سرزمین پر نہیں اتریں گے بلکہ شہر عدن سے ملحق ’گیولا‘ نامی ٹرانزٹ کیمپ سے یہودیوں کو اٹھائیں گے جو اس وقت انگریز حکومت کے پاس تھا اور یمن سے قریباً 300 کلو میٹر دور تھا۔

اس کے بعد اس خفیہ آپریش کی تیاری شروع ہوئی جس کا نام ’آپریشن میجک کارپٹ‘ تجویز کیا گیا اور اس کا ہدف یمن سے تمام یہودیوں کو نکال کر بحفاظت اسرائیل پہنچانا تھا۔

آپریشن میجک کارپٹ

چونکہ یہ ایک خفیہ آپریشن تھا اس لیے اعلان نہیں کیا جا سکتا تھا کہ تمام یہودی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں، جہاں سے ان کو لے جایا جائے گا بلکہ یمنی حکومت کی رضامندی سے ہی کچھ لوگوں کی ڈیوٹی لگائی گئی جن کا کام یہودیوں کو ڈھونڈنا اور ان کو اسرائیل جانے کے لیے تیار کرنا تھا۔

ساتھ ہی انہیں یہ تاکید بھی کرنا تھی کہ کسی کو نہ بتائیں۔ یوں کئی ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اندازے کے مطابق قریباً تمام ہی یہودیوں کو پیغام مل گیا تھا اور وہ تیار ہو چکے تھے۔

اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے ٹولیوں کی شکل میں لوگ ٹرانزٹ کیمپ کی طرف چلنا شروع ہوئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی، چونکہ سواریوں کا انتظام نہیں تھا اور دوسرا چھپ کر بھی جانا تھا اس لیے وہاں پہنچنے والوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

 مصائب اور کئی روز کے سفر کے بعد قافلے ٹرانزٹ کیمپ کے پاس پہنچے تو  امریکہ اور اسرائیلی حکومت نے پہلے سے رہائش، صحت کی سہولتوں، خوراک وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا۔ رضاکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی، چونکہ ان میں اکثریت انتہائی غریبوں کی تھی اس لیے بیت الخلا اور دوسری سہولتیں ان کے لیے حیران کن تھیں۔

1949 کے جون کے آغاز میں جب پہلا جہاز پہنچا تو غریب لوگ اسے دیکھ کر ڈر گئے اور سوار ہونے سے انکار کر دیا جنہیں رضاکاروں نے کافی سمجھا بجھا کر سوار کروایا اور یوں پہلا جہاز قریباً 100 یہودیوں کو لے کر اڑا، تل ابیب پہنچا، لوگ اتارے اور پھر واپس عدن پہنچا، یہ سلسلہ ستمبر 1950 تک جاری رہا اور یہودیوں کو یمن سے اسرائیل پہنچایا جاتا رہا۔

یہ انتہائی خفیہ اور خطرناک آپریشن تھا لیکن اسے اس مہارت سے پورا کیا گیا کہ اس میں ایک انسانی جان تک ضائع نہیں ہوئی۔اس کے لیے الاسکا ایئرلائنز کے 28 طیارے مسلسل اڑتے اور اترتے رہے اور 50 ہزار افراد کو لے جایا گیا۔جہازوں کو ایک مہینے میں قریباً 300 گھنٹے تک اڑایا گیا حالانکہ امریکہ میں اس کی حد 90 گھنٹے تک مقرر ہے۔

کم سے کم وقت میں سب کو نکالنا اولین ترجیح تھی۔

ڈگلس ڈی سی فور، کرٹس سی 46 نامی جہازوں کی استطاعت اتنی نہیں تھی کہ اس قدر بڑا آپریشن کر سکیں اس لیے جہازوں کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ان میں اضافی ایندھن کی ٹینکیاں لگائی گئیں جبکہ سیٹوں کو تنگ کر کے جوڑا گیا اور اضافی بینچ بھی لگائے گئے۔ جس کے بعد زیادہ سے زیادہ 50 مسافر لے جانے والا طیارہ ایک 120 سے زائد مسافر لے جا سکتا تھا اور اضافی وزن کے باوجود بھی ایندھن زائد گھنٹوں تک کے لیے کام کرتا۔آپریشن میجک کارپٹ کو ’آپریشن آن ونگز آف ایگل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آپریشن مکمل ہونے کے کئی ماہ بعد دنیا کو اس کا علم ہوا۔

اسرائیل پہنچنے کے بعد کیا ہوا؟

منزل پر پہنچ جانے کے بعد بھی مسائل نے پیچھا نہیں چھوڑا  کیونکہ اسرائیل کو آزاد ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا اور اسے بے تحاشا مسائل کا سامنا تھا جن میں سب سے بڑا مسئلہ مالی وسائل کا تھا۔

ایسے میں بہت بڑی تعداد کے ملک میں پہنچنے سے صورت حال مزید گھمبیر ہو گئی۔ سب سے پہلے آنے والوں کو بڑے شہروں کے مضافات میں قائم کیے جانے ٹرانزٹ کیمپوں میں لے جایا گیا جہاں وہ چند ماہ تک قیام پذیر رہے۔

ان کی خوراک کا انتظام حکومت کی جانب سے کیا جا رہا تھا۔ صورت حال میں کچھ بہتری آنے پر ان کو زرعی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا جہاں کچھ نے کھیتی باڑی شروع کی۔ معاشی صورت حال بہتر ہوتی گئی اور ان میں سے کئی دوسرے اور بڑے شہروں کی طرف منتقل ہو گئے۔

جہاں دیگر نسلوں کے یہودیوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کو مواقع دیے گئے۔ پڑھائی لکھائی اور آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع دیے گئے اور ووٹ کا حق بھی، اس طرح وہ جلد ہی گھل مل گئے اور شادی بیاہ کے رشتوں میں بھی بندھ گئے۔

دیگر آپریشنز

آپریشن میجک کارپٹ کی کامیابی کے بعد اسرائیلی حکومت نے دنیا کے دیگر حصوں سے بھی یہودیوں کو اسرائیل لانے کا منصوبہ بنایا اور بعد ازاں کئی آپریشنز ہوئے۔عراق سے ایک لاکھ بیس ہزار یہودیوں کو ایئرلفٹ کیا گیا یعنی جہازوں کے ذریعے اسرائیل لے جایا گیا۔ اسی طرح 1984 میں سوڈان کے مہاجر کیمپ میں موجود 8000 ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل لے جایا گیا۔ 1991 میں اسرائیلی جہازوں نے صرف 36 گھنٹوں کے اندر 15 ہزار ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا۔ اس طرح چند سال کے عرصے میں قریباً 10 لاکھ یہودی اسرائیل پہنچے۔چند سال قبل تک ایسی خبریں آتی رہی ہیں جن میں خفیہ طور پر یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا جاتا رہا ہے۔

اسرائیل کا ایک ادارہ رضاکارانہ طور پر اس حوالے سے اب بھی کام کر رہا ہے۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div