Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

جرائم میں ہپناٹزم کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔۔۔؟

یہ 16 جون 2020 کی صبح تھی۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے احمد...
شائع 28 ستمبر 2020 09:11am

یہ 16 جون 2020 کی صبح تھی۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے احمد پور شرقیہ کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک چھوٹے سے قصبے ٹرنڈہ محمد پناہ میں گرمی کی حدت دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی۔

اس قصبے میں محمود الحسن اپنے ایک چھوٹے سے سپر سٹور پر طویل گرم دن گزارنے کی تدبیر کر رہے تھے۔ کاروبار کے آغاز کے تھوڑی دیر بعد ان کے سٹور میں ایک گاہک آیا اور کچھ چیزیں خریدیں۔

اس کے بعد ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ وہ آج تک حیران ہیں کہ ان کے مکمل ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے ان کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیسے ہو گیا۔

محمود الحسن بتاتے ہیں کہ ’میں اپنے سٹور کے کیش کاوئنٹر پر موجود تھا کہ ایک شخص دکان میں داخل ہوا اور اس نے کچھ راشن خریدا۔ وہ بہت ملنسار تھا۔ میں نے راشن کے پیسے لیے اور اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ اس شخص میں کچھ مختلف تھا۔ پانچ منٹ کے بعد وہ دوبارہ میری دکان کی طرف آتا دکھائی دیا اب وہ دکان کے قریب پہنچا ہی تھا تو اس کے ہاتھ سے راشن گر گیا جو اس نے میری ہی دکان سے خریدا تھا۔‘

’اس وقت میں دکان میں اکیلا تھا، جیسے ہی اس شخص کے ہاتھ سے راشن کا تھیلا گرا میں کاوئنٹر کے پیچھے سے بھاگ کر اس کی طرف لپکا اور زمین پر گری چیزوں کو سنبھالنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ اس کام میں کتنا وقت وقت لگا لیکن بہر حال چیزیں جب سمٹ گئیں تو اس شخص نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھ سے کوئی ایڈریس پوچھ کر وہاں سےچلا گیا۔‘

محمود الحسن نے بتایا کہ وہ اس شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے جاتا دیکھ رہے تھے اور تھوڑی ہی دور ایک سِلور رنگ کی گاڑی کھڑی تھی جس میں وہ جا کر بیٹھ گیا۔

’اس گاڑی میں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بیٹھتے ہی وہ گاڑی روانہ ہو گئی۔ اس واقعے کے ایک گھنٹہ یا شاید اس سے کچھ زیادہ وقت کے بعد میرے سٹور میں اور گاہک آنا شروع ہوئے تو میں نے کیش کاوئنٹر کھولا۔‘

’کیش کاؤنٹر کھولتے ہی میرا سر چکرا گیا۔ وہ خالی تھا۔‘

محمود الحسن کہتے ہیں کہ کیش کاؤنٹر کو خالی دیکھ کر انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہوا ہے۔ اس میں موجود اچھی خاصی رقم کہاں چلی گئی تھی۔

’ساتھ میں اپنی ایک اور دکان میں موجود اپنے بھائی کو بلا کر پوچھا کہ کیا وہ میری دکان میں آئے تھے اور کیا پیسے انہوں نے نکالے؟ کیونکہ ہم اکثر ایمرجنسی میں ایک دوسرے سے مدد لے لیتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ پیسے انہوں نے نہیں نکالے۔‘

اس کے بعد محمود الحسن کے سر میں درد شروع ہو گیا۔

’دکان کھولنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھوں سے کیش خود رکھا تھا بلکہ پیسے گنے بھی تھے۔ پورے 56 ہزار روپے تھے۔ مجھے تو یہ بھی یاد تھا کہ بڑے نوٹ کتنے تھے اور چھوٹے کتنے۔ اب اچانک مجھے کچھ یاد آنے لگا۔ جب میں اس شخص کی سامان اٹھانے میں مدد کر رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ کوئی اور شخص میری دکان کے اندر گیا ہے لیکن اس وقت مجھے یہی لگا میرا بھائی ہوگا اور میں نے دکان کی طرف مڑ کے دیکھا بھی نہیں تھا۔‘

حواس بحال ہونے پر محمود الحسن اور ان کے بھائی نے ان لوگوں کو ڈھونڈنا شروع کیا تو انہیں پتا چلا کہ اس صورت حال کا وہ اکیلے شکار نہیں تھے بلکہ ان کے علاقے میں دو روز کے اندر اس طرح کے پانچ واقعات ہو چکے تھے۔ لٹنے والے سبھی لوگوں نے ایک جیسا حلیہ اور طریقہ واردات بتایا۔

غیر روایتی طریقہ واردات

ان وارداتوں کی شکایات ملنے پر اس علاقے سے متعلقہ موٹر وے پولیس نے ملازمین کی تلاش شروع کر دی۔

موٹر وے پولیس کے ترجمان سید عمران احمد کے مطابق انہوں نے جلد ہی ملزمان سدھیر، ارشاد، اقبال، رجب اور ان کے ساتھ موجود 10 سالہ لڑکی کالی کو گرفتار کر لیا۔

پولیس کو دوران تفتیش پتہ چلا کہ ان افراد کا تعلق سندھ کے علاقے مٹھی سے ہے اور یہ مختلف علاقوں میں دھوکہ دہی کی ایسی وارداتوں میں ملوث ہیں۔

تفتیشی افسر ناصر اقبال تسی نے بتایا کہ ملزمان لوگوں کو ان کی نظروں کے سامنے دھوکہ دینے کے ماہر تھے۔ اور وارداتوں کے غیر روائتی طریقے استعمال کر رہے تھے۔

’ہم نے ان تمام افراد کی درخواستوں پر مقدمات درج کیے جن سے پیسے لوٹے گئے تھے۔ دوران تفتیش ہمیں پتا چلا کہ ملزمان نہ تو ڈکیتی کرتے ہیں نا ہی یہ روایتی چور ہیں کیونکہ چور کبھی بھی دن دہاڑے آپکی آنکھوں کے سامنے چوری نہیں کریں گے وہ تو چھپ کر ایسی وارداتیں کرتے۔ یہ تو انتہائی شاطر اور نوسر باز قسم کے لوگ ہیں جو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے انہیں لوٹ لیتے ہیں اور پتا بھی نہیں چلنے دیتے۔‘

کیا یہ وارداتیں ہپناٹزم کے ذریعے کی گئیں؟

موٹر وے پولیس کے ترجمان سید عمران احمد نے بتایا کہ ان وارداتوں میں استعمال کیے گئے طریقہ کار سے گمان ہوتا ہے کہ یہ ملزمان ہپناٹزم یا ٹیلی پیتھی کے ماہر تھے کیونکہ سب وارداتوں میں انہوں نے اپنے شکار کو ایسے الجھایا کہ انہیں واردات کا علم ہی نہیں ہونے دیا۔ بلکہ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے واردات ہوئی لیکن انہیں کافی دیر بعد اس کا ادراک ہوا جیسے انہیں ماؤف کیا گیا ہو۔

تفتیشی افسر ناصر اقبال تسی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملزم انتہائی شاطر اور اپنے کام کے ماہر ہوتے ہیں۔

’آپ یوں کہہ لیں کہ یہ ایک منظم فراڈ کرتے ہیں جس میں یہ پہلے تو اپنے شکار کی پوری چھان بین کرتے ہیں اور اس کی نفسیات کو سمجھتے ہیں۔ یہ متاثرہ شخص کو پتا ہی نہیں لگنے دیتے کہ کون اسے کب مل کر گیا ہے۔ کہیں یہ دس سالہ بچی جو ان کے ساتھ ہے اسے بھی استعمال کرتے ہیں۔‘

پولیس کا ماننا ہے کہ منظم دھوکہ دہی کے اس طریقہ واردات میں ملزمان لوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ہیں اور موقع ملتے ہی چوری کر لیتے ہیں۔

’ایک بات بڑی واضح ہے کہ ہر واردات میں ایک شخص نے متاثرہ فرد کو الجھائے رکھا اور کسی دوسرے نے واردات کر لی۔ یہ طریقہ ان سب وارداتوں میں یکساں تھا۔‘

ہپناٹزم ہے کیا؟

پاکستان میں ہپناٹزم کے ماہر ڈاکٹر ابراہیم سیاوش نے بتایا کہ ’ہپناٹزم بنیادی طور پر ایسے نفسیاتی طریقہ کار کو کہتے ہیں جس میں کسی بھی شخص کے تحت الشعور کے ساتھ براہ راست ابلاغ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک شخص کے تحت الشعور میں کوئی بات داخل کی جا سکتی ہے۔‘

’ہپناسز اصل میں ایک تبدیل شدہ حالت کا نام ہے۔ یعنی نہ تو آپ مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہوتے ہیں اور نہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ نیم خوابیدہ قسم کی صورت حال ہوتی ہے جسے انگریزی میں آلٹر سٹیٹ کہتے ہیں۔ اس حالت میں دماغ بہت زیادہ تخلیقی ہوتا ہے اس حالت میں لے جانے کے بعد ہپنا تھراپسٹ ایسے مثبت مشورے دماغ میں ڈالتا ہے جسے دماغ عام حالت میں قبول نہیں کر رہا ہوتا۔ ہپناٹز کرنے کے لیے اگلے شخص کا آلٹر سٹیٹ میں ہونا ضروری ہے بعض لوگ اس حالت میں جلدی پہنچ جاتے ہیں اور کچھ تاخیر سے۔‘

ٹرنڈہ محمد پناہ میں ہونے والے واقعات سے متعلق ڈاکٹر ابراہیم سیاوش کا کہنا ہے کہ ’یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے لوگ موجود ہو سکتے ہیں جو اس فن کے ماہر ہیں اور میں اس طرح کے واقعات پہلے بھی سن چکا ہوں۔ ان لوگوں کے پاس ایسی کوئی شناخت ضرور ہے جس سے یہ لوگ پتا چلا لیتے ہیں کہ کون شخص جلدی ہپناٹزم ہو سکتا ہے اور کون نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہر کسی پر اس کو نہیں آزما رہے تھے۔‘

ڈاکٹر ابراہیم سیاوش نے بتایا کہ پوری دنیا میں جرائم پیشہ لوگ ہپناٹزم استعمال کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ بہت زیادہ پریکٹس کرتے ہیں۔

جرائم میں ہپناٹزم کے متعلق قانونی رائے

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ چوہدری کے مطابق اس نوعیت کے پراسرار واقعات میں دیکھا جاتا ہے کہ ایف آئی آر کیسی درج ہوئی، کیا وہاں بھی ہپناٹزم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں یا کچھ اور لکھا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ ’قانون کبھی بھی مافوق الفطرت یا غیر مرئی چیزوں کو احاطے میں نہیں لاتا۔ لیکن جب پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قابل پولیس دست اندازی ہے۔ اس سے پہلے ملزمان نے بھلے جو بھی طریقہ اس استعمال کیا ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔‘

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div