Aaj News

جمعہ, اپريل 19, 2024  
10 Shawwal 1445  

قزاقوں کے خزانے اور آدم خور شارک سے گھرا حقیقی “جراسک پارک”

خزانے کی کہانی بہت دلچسپ ہے، جس پر ایک فلم بھی بنائی جاسکتی ہے۔
شائع 01 اگست 2022 06:08pm
کوکوس جزیرہ (تصویر: ہرالڈ سلاشیک/اسابلانکا/ گیٹی امیجز)
کوکوس جزیرہ (تصویر: ہرالڈ سلاشیک/اسابلانکا/ گیٹی امیجز)

بظاہر جراسک پارک میں پھنس جانے، ریپٹرز کو چکما دینے اور ٹی ریکس سے چھپنے سے زیادہ خوفناک کوئی چیز نہیں ہے۔

لیکن کیا ہو اگر حقیقت میں ایسا جان لیوا جزیرہ موجود ہو؟

جراسک پارک سیریز کی فلمیں جس جزیرے سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہیں، وہ اصل میں موجود ہے اور اتنا ہی خوفناک بھی ہے۔

یہاں سیاحوں کا جانا خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اس کی حفاظت آدم خور قاتل شارک کا ایک لشکر کرتا ہے۔

 ایک زیر آب فوٹوگرافر کوکوس جزیرے کے آس پاس کے سمندروں میں ٹائیگر شارک کی تصویر لے رہا ہے (تصویر: اسٹیفن فرینک)
ایک زیر آب فوٹوگرافر کوکوس جزیرے کے آس پاس کے سمندروں میں ٹائیگر شارک کی تصویر لے رہا ہے (تصویر: اسٹیفن فرینک)

جراسک پارک جس کتاب پر مبنی ہے وہ بحر الکاہل کے وسط میں ایک دور دراز اور مہلک جزیرے سے متاثر تھی۔

کوسٹا ریکا کے ساحل سے 340 میل دور اس “کوکوس” جزیرے پر بہت کم لوگوں کو جانے کی اجازت ہے۔

اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں ڈائنوسار گھوم رہے ہیں، بلکہ یہاں کے پانی میں گشت کرتی شارک مچھلیوں کی فوج اور ایک گھنا، برساتی جنگل ہے جس پر 400 سے زیادہ اقسام کے حشرات ہیں۔

لیکن کوکوس جزیرے کو محدود کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں مبینہ طور پر گزشتہ 200 سالوں سے ایک ارب ڈالر مالیت کا خزانہ دفن ہے۔

 کوکوس جزیرے پر موجود ایک غار
کوکوس جزیرے پر موجود ایک غار

لیما کے اس خزانے کی کہانی بہت دلچسپ ہے، جس پر ایک فلم بھی بنائی جاسکتی ہے۔

افسانوں کے مطابق، 1820 میں ہسپانوی افواج سے بچنے کے لیے پیرو کے دارالحکومت لیما سے خزانے کا ایک بہت بڑا ذخیرہ یہاں منتقل کیا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ خزانے میں سیکڑوں چاندی کے سکے، ہیرے اور ورجن میری کا سونے کا مجسمہ ہے جس قد و قامت میں ایک انسان جتنا ہے۔

ایک برطانوی سمندری کپتان ولیم تھامسن اور ان کی کشتی “میری ڈیئر” کو اس جہاز کی حفاظت اور میکسیکو تک اس کے محفوظ راستے کو یقینی بنانے کا کام سونپا گیا تھا۔

تاہم، کیپٹن تھامسن اتنے بھروسہ مند نہیں نکلے جتنا پیرو والوں نے سوچا تھا، کیپٹن اور ان کے افسران نے جہاز میں سوار تمام ہسپانوی فوجیوں اور پادریوں کو قتل کر دیا اور پھر راستے میں رک کر کوکوس جزیرے پر خزانہ چھپا دیا۔

کیپٹن تھامسن اور ان کے عملے کو بالآخر ہسپانوی افواج نے گرفتار کر لیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔

سزاؤں میں نرمی کے بدلے کیپٹن نے کوکوس واپس جانے اور ہسپانوی افواج کو یہ دکھانے پر رضامندی ظاہر کی کہ انہوں نے خزانہ کہاں دفن کیا تھا۔

لیکن جزیرے پر پہنچتے ہی وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور خزانہ آج تک نہ مل سکا۔

افواہ ہے کہ لیما کا خزانہ کوکوس پر دفن کردہ واحد قیمتی چیز نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں 19ویں صدی کے اوائل میں جرمن اور انگریز قزاقوں نے لاکھوں ڈالر مالیت کا سونا، چاندی اور جواہرات بھی چھپا رکھے تھے۔

 کوکوس جزیرے کا من گھڑت خزانہ صدیوں سے باؤنٹی ہنٹرز کو بیوقوف ثابت کر رہا ہے (تصویر: گیٹی امیجز/ ڈی اگوسٹینی)
کوکوس جزیرے کا من گھڑت خزانہ صدیوں سے باؤنٹی ہنٹرز کو بیوقوف ثابت کر رہا ہے (تصویر: گیٹی امیجز/ ڈی اگوسٹینی)

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان کہانیوں کی وجہ سے کو کوکوس خزانہ تلاش کرنے والوں کے لیے ایک مقناطیس بن گیا ہے، متلاشیوں نے جزیرے پر 500 سے زیادہ مہمات کی ہیں، لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

کوسٹا ریکن کی حکومت نے آخر کار جزیرے میں داخلے پر پابندی لگا دی اور اسے اب یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یعنی رسائی پہلے سے کہیں زیادہ محدود اور کنٹرول شدہ ہے۔

کوکوس پر اب صرف رینجرز اور وہاں جنگلی حیات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے لیے موجود لوگوں کو جانے کی اجازت ہے اور ان کے دوروں کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

غوطہ خوروں کو بھی کوکوس جزیرے کے آس پاس تیراکی سے ڈر لگتا ہے کیونکہ یہ ٹائگر اور ہیمر ہیڈ شارک سے گھرا ہوا ہے، جو کسی بھی غوطہ خوری کی مہم کو جان لیوا بنا سکتی ہیں۔

لیکن کیا خزانہ واقعی موجود ہے؟

بہت سے محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ صرف قزاقوں کی بنائی ایک من گھڑت کہانی ہے، جبکہ کچھ کا دعویٰ ہے کہ یہ خزانہ کئی دہائیوں پہلے موجود ضرور تھا لیکن اب وہاں کچھ بھی نہیں بچا۔

ایڈونچر ڈائیونگ کمپنی “انڈر سی ہنٹر گروپ” سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر اور مصنف گینا میری ڈیوس نے فوربز میگزین کو بتایا کہ انہیں خزانے کی موجودگی پر شک ہے لیکن وہ امیڈ ضرور رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ، “کوکوس جزیرے کے خزانوں کے بارے میں لکھنا مشکل ہے کیونکہ یہاں بہت زیادہ سنی سنائی کہانیاں اور متضاد معلومات موجود ہیں، اس کی حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے۔”

انہوں نے کہا کہ “کہانیاں بہت مزے کی ہیں، خزانہ ڈھونڈنے والوں نے جان بوجھ کر بہت ساری غلط معلومات پھیلائیں تھیں تاکہ دوسرے ٹریژر ہنٹرز کو بھٹکایا جاسکے۔ “

لیکن جزیرے کے ایک درخت پر نقش و نگار کی صورت میں چھوڑا گیا ایک اشارہ ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ خزانہ اب یہاں موجود نہیں ہے۔

درخت پر لکھا ہے، “پرندہ اڑ چکا ہے۔”

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div