Aaj News

پیر, اپريل 29, 2024  
20 Shawwal 1445  

کراچی میں قبرستان انتظامیہ کا خواجہ سرا کی لاش کی تدفین سے انکار

مسجد انتظامیہ خواجہ سرا کی نماز جنازہ ادا کرنے سے بھی انکاری
شائع 27 اپريل 2023 05:15pm
فوٹو — اسکرین گریب
فوٹو — اسکرین گریب

کراچی کے علاقے مسلم آباد کی مسجد اور قبرستان انتظامیہ نے خواجہ سرا کی لاش کی تدفین سے انکار کر دیا۔

شہر قائد میں واقع مسلم آباد سے تعلق رکھنے والی ایک معمر خواجہ سرا نور جمعے کے روز خراب صحت کے باعث انتقال کر گئی تھیں۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کی کارکن حنا بلوچ نے اپنے انسٹاگرام پر نور کی تدفین اور اس کے انتظامات سے متعلق اپنے تجربے کے بارے میں ایک اسٹوری شیئر کی۔

خواجہ سرا خاندانی نظام میں نور کے چیلے، شاگرد یا بچے نے اس کے رشتہ داروں سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے نور کے جنازے میں آنے سے انکار کردیا تھا۔

محلے کی مسجد اور قبرستان کا عملہ نور کی خواجہ سرا شناخت کی وجہ سے نماز جنازہ ادا کرنے اور تدفین سے انکاری ہوگئے۔

حنا بلوچ نے مدد کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا جو مدد کے لیے تیار تھے، لیکن آگے بڑھنے سے پہلے انہیں پولیس کی تصدیق کی ضرورت تھی۔

کاغذی کارروائی کروانے کے لئے حنا بلوچ مومن آباد تھانے پہنچی تاہم پولیس نے اسپتال سے موت کی تصدیق سمیت مزید کاغذی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

حنا بلوچ نے اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں لکھا کہ چاند رات کو شہر کے ایک کونے میں اپنے گھر پر مرنے والے شخص کی موت کو سرکاری اسپتال سے تصدیق کروانا تقریباً ناممکن اور مایوس کُن تھا جہاں ایمبولینس بھی لاش کو لینے نہیں آرہی تھی اور جسم پہلے ہی گلنا شروع ہو چکا تھا۔

اس کے بعد حنا نے شہزادی رائے کو مدد کے لیے فون کیا، کیونکہ وہ سندھ پولیس کے لیے ٹرانس جینڈر نمائندہ ہیں اور ان کے سینئر پولیس افسران سے رابطے ہیں۔

شہزادی رائے کو کال کرنے کے بعد پولیس نے حنا بلوچ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اجازت نامہ جاری کیا اور ایک فرانزک ٹیم نور کے گھر بھیجی۔ بعد ازاں لاش کو ایدھی ایمبولینس کے ذریعے تدفین کے لیے لے جایا گیا۔

نور کی زندگی

نور 2016 سے چیک اپ کے لیے اسپتالوں میں جا رہی تھی۔ وہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس میں مبتلا تھی۔

نور کے چیلوں نے آج نیوز کو بتایا کہ نور کے شاگردوں کے پاس اس کے تمام میڈیکل ریکارڈز کے ساتھ متعدد فائلز بھی موجود ہیں جن میں نجی اسپتالوں سے پچھلے 7 سالوں میں کرائے گئے میڈیکل ٹیسٹ کا ریکارڈ ہے لیکن اسپتال کے وہ تمام دورے اور ٹیسٹ نور کو بہتر ہونے میں مدد نہیں دے رہے تھے۔

ان کے شاگردوں کے مطابق نور اپنی زندگی کے آخری چند مہینوں میں علاج کے لیے جناح اسپتال جاتی رہی تھیں، شاگردوں کو شبہ ہے کہ نور کو کینسر تھا۔

نور کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے تھا لیکن ان کے خاندان نے انہیں اپنی زندگی کے اوائل میں ہی چھوڑ دیا تھا، اور ان کی تمام زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

نور کراچی کے اورنگی ٹاؤن مسلم آباد میں کرائے کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں، پاکستان میں بہت سے خواجہ سراؤں کی طرح ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی جشن کے اوقات میں لوگوں کے گھر جا کر دعائیں دینا اور بدلے میں پیسے وصول کرنا تھا۔

نوٹ: یہ خبر پہلے انگریزی میں یہاں شائع ہوئی ہے

karachi

Transgender

Transgender Act

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div