کراچی جتنا سندھ کا ہے، اتنا پاکستان کا بھی ہے، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
آج نیوز کے پروگرام روبررو میں گفتگوکرتے ہوئے سربراہ ایم کیوایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان اورسندھ کسی کے باپ کا نہیں۔ کراچی جتنا سندھ کا ہے۔ اتنا ہی اس ملک کا بھی ہے لیکن اپنے باپ دادا کے ناموں پر سیاست کرنے والے خود کو ان جگہوں کا مالک سمجھتےہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کراچی سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد دیتا ہے تو یہ پورے صوبے کا مالک ہے اس کے باوجود یہ شہر دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے آج نیوز کے پروگرام روبرو میں میزبان شوکت پراچہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کراچی اور سندھ کے مسائل پر کھل کر بات کی۔ گورنر ہاؤس میں پیش آنے والے حالیہ واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ یہ واقعہ کوئی طے شدہ ایونٹ لگتا ہے اور گورنر کامران خان ٹیسوری کے کمرے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو اتنا بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی، اگر قائم مقام گورنر کو گورنر کا کمرا ملنے میں مسئلہ تھا تو معاملہ کسی بات چیت سے حل ہو سکتا تھا۔
گورنر ہاؤس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ سندھ میں حکومتی انتظامات کی پیچیدگیاں کبھی کبھی مسئلے کو پیدا کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے عدالت سے متعلق بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ کبھی کبھی عدالتوں کے فیصلے جلد بازی میں آ جاتے ہیں اور بعض کیسز میں دائرہ اختیار کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔
کراچی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کو نظرانداز کر رہی ہے، بلکہ سندھ حکومت کے اقدامات میں کمی نظر آتی ہے۔ کراچی کے اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”کراچی جتنا سندھ کا ہے، اتنا پاکستان کا بھی ہے۔“ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ کراچی کا حصہ جو ملک کے بجٹ میں آتا ہے، وہ پورے پاکستان کی معیشت کے لیے اہم ہے، اس کے باوجود کراچی کو اپنے حصے کا جائز حق نہیں مل رہا۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے اجداد تو کراچی میں آئے تھے جو پاکستان کا دارالخلافہ تھا، وہ سندھ کا حصہ نہیں تھا۔ پاکستان کی تاریخ 14 اگست 1947 سے شروع ہوتی ہے۔ یہ والی بات کرنا کہ کراچی کسی کے باپ کا نہیں تو سندھ بھی کسی کے باپ کا نہیں ہے اور پاکستان بھی کسی کے باپ کا نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے باپ داداؤں کو لا کر اپنے آپ کو پاکستان کا اور سندھ کا وارث سمجھ لیا۔ باپ داداؤں کے نام پر سیاست کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے مالک بھی ہیں۔ کراچی سندھ کا مالک ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین نے سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے لیے 236 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز سے متعلق سوال پر کہا کہ ”دعویٰ کرنے اور اعلان کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، تاریخ گواہ ہے کہ کراچی میں 2002 سے 2008 تک ترقی کی شرح بہت تیز تھی لیکن اس کے بعد، 18ویں ترمیم اور اختیارات کے صوبوں کو منتقلی کے بعد شہر کی حالت بدتر ہوئی ہے۔“
میزبان شوکت پراچہ نے سوال کیا کہ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری جو چیئرمین ہیں ان کے ساتھ فیصل سبزواری برابر کھڑے ہیں اور دوسری طرف بجٹ کے اجلاس میں ہم نے دیکھا کہ بڑی تلخیاں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان آئیں۔ یہ تلخیاں کیوں آتی ہیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے جواب دیا کہ یہ تلخیاں تو آنی چاہییں کیا بری بات ہے؟ البتہ دشمنیاں نہیں آنی چاہییں، اختلاف رائے ہونا چاہیے، مارپیٹ نہیں ہونی چاہیے۔ بات یہ ہے کہ ہم مختلف سیاسی جماعتیں کیوں ہیں؟ ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے اور سوچنے کا طریقہ الگ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے لحاظ سے جو لوگ الیکشن لڑنے کے وسائل نہیں رکھتے، اہلیت رکھتے ہیں، قابلیت رکھتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف پاکستانیوں کے مسائل کو جانتے ہی نہیں اس سے نبرد آزما بھی رہتے ہیں، وہ درد کو دکھ کو جانتے ہیں تو بجٹ سمیت ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔
حکومتی الائنس میں رہنے کے سوال پر کہ اتحاد کیوں مشکل ہو جاتا ہے؟ اس پر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ”اتحاد اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب آپ اپنے مسائل یا نقطہ نظر کو عوام کے سامنے نہیں لا سکتے۔“ انہوں نے کہا کہ آئین میں دی گئی دفعات پر عملدرآمد کے لیے مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔
کراچی کے اسکولوں اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ”کراچی کے اسکولوں کی حالت زار اور لاڑکانہ کے اسکولوں کی تباہی ظاہر کرتی ہے کہ ہمیں تعلیم اور بنیادی سہولتوں کے حوالے سے گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ شہر کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کی جائیں، خاص طور پر کراچی اور حیدر آباد کے درمیان موٹر وے کی ضرورت ہے۔ بہت بے شرمی کے ساتھ سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دے دیا گیا۔ پہلے تیس روپے کا ٹول تھا اور اب تین سو روپے ہوگیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا بنیادی ٹریفک پورٹ سے جنریٹ ہوتا ہے، اور اگر شہر کو مکمل ترقی دینی ہے تو ضروری ہے کہ حکومت کراچی کی اہمیت کو تسلیم کرے اور اس کے مسائل حل کرے۔
Comments are closed on this story.