Aaj News

جمعہ, مئ 10, 2024  
02 Dhul-Qadah 1445  

نیوکلئیر طاقتوں کو لگام کس نے ڈالی ہوئی ہے؟

شائع 21 مارچ 2017 06:02pm
-Washington Post -Washington Post

آج دنیا میں صرف 9 ممالک نیوکلئیر ہتھیاروں سے لیس ہیں، جن میں امریکا، فرانس، برطانیہ، روس، چین، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل شامل ہیں۔

آپ کو بتاتے ہیں کہ ان تمام ممالک نے نیوکلئیر ہتھیاروں ک ذخیرہ کیوں جمع کررکھا ہے۔

ایٹمی ہتھیار بنانے والا پہلا ملک امریکا تھا،جس نے دوسری عالمی جنگ عظیم کو ختم کرنے کیلئے نیوکلئیر ہتھیار بنائے۔ 

امریکا کوجلد ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ایٹمی ہتھیار ایسی چیز ہیں جو کسی بھی ملک کو طاقت فراہم کر سکتے ہیں۔ 

دوسری عالمی جنگ عظیم کا آغاز سرد جنگ سے ہوا تھا ۔

سوویت یونین، امریکا سے مقابلے کیلئے ایٹمی ہتھیار چاہتا تھا  لہٰذا اس نے انتہائی طاقتور بم تیار کیا جسے 'ٹیسار بومبا' کا نام دیا گیا۔  یہ بم ہیروشیما پر استعمال ہونے والے بم کے مقابلے میں 3800 فیصد زیادہ طاقتور تھا۔

سویت یونین کی تقسیم کے بعد تمام ایٹمی ہتھیار روس کے پاس چلے گئے، یہاں تک کہ یوکرین اور قزاقستان نے اپنے تیار کردہ ایٹمی ہتھیار بھی روس کو دے دئیے ،جس کے بعد روس نے ان سے معاہدہ کیا کہ مستقبل میں ان کے ساتھ  سرحدی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔

فرانس اور برطانیہ نے بھی دوسری جنگ عظیم جیتنے کے بعد ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا آغاز کر دیا تھا ۔

70 کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان نے بھی آپسی کشیدگی کے سبب  ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں قدم رکھ دیا تھا نیوکلئیر ہتھیاروں کا یہ پھیلاؤ 1980سے شروع ہوا اور 1990 میں اس نے شدت اختیار کر لی۔

جبکہ چین نے مغربی کی جانب سے جارحیت کے بعد اپنے نیوکس ظاہر کئے،  اس وقت ہندوستان اور روس اچھے اتحادی تھے جبکہ پاکستان کو خراب حالات کا سامنا تھا ۔

جب اس سلسلے کا آغاز تیزی کے ساتھ ہوا تو نارتھ کوریا نے بھی ایٹمی ہتھاروں کی تنصیب کا آغاز کردیا،شمالی کوریا کے نیوکس کی تعداد دس سے بھی کم تھی، لہذا زیادہ سیکورٹی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

اسرائیل کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار موجود تھے جن کی تعداد 100 سے 500 کے قریب تھی۔ اس حوالے سے اسرائیل نے نہ کبھی تصدیق کی اور نہ ہی  تردید کی، یہ ایک ایسی بات ہے جس پر اسرائیلی حکام گفتگو نہیں کرتے لیکن سب جانتے ہیں کہ اسرائیل بھی نیوکلئیر ہتھیاروں سے لیس ہے۔

اسرائیل کا مقصد خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا اور ان ممالک کا سامنا کرنا تھا جو اسرائیل کے غیر قانونی وجود کے خلاف تھے۔

قومی سلامتی کی سوچ کے تحت فوجی قیادت کا یہ نظریہ تھا کہ اس کا استعمال دونوں حریفوں کیلئے انتہائی نقصاندہ ہوگا، ایٹمی ہتھیار یہ سوچ کر بنائے گئے تھے کہ ان سے امن قائم ہوگا لیکن اس کا استعمال خود امن کیلئے انتہائی نقصاندہ تھا ۔

کسی بھی ملک کے نیوکلئیر ہتھیاروں کی تعداد اہمیت کی حامل ہے۔

روس کا کہنا تھا کہ امریکا کے پاس 7000 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جو کسی بھی ملک کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔  اور یہی وجہ تھی کہ روس نے کبھی امریکا پر حملہ نہیں کیا کیونکہ یہ اس کیلئے خودکشی ثابت ہوتی۔

دوسری طرف چین کے پاس 300 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں  جو چین کے  بھرپور دفاع کیلئے کافی ہیں۔

تمام ممالک کیلئےایٹمی ہتھیارضروری نہیں، کیونکہ زیادہ تر مما لک کو اس کی ضرورت نہیں یا پھر وہ اس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔

اکثر مملاک اپنے اتحادیوں کی بدولت خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔

مختلف مما لک کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں سے پرہیز کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔

عالمی معاہدہ (این پی ٹی) اس کی ایک بہترین مثال ہے،  مختلف ممالک اپنے اسلحے سے دستبردار ہو کر استفادہ حاصل کرتے ہیں، تمام ممالک این پی ٹی کا حصہ ہیں جو انہیں نیوکلئیر ہتھیاروں کی افزائش سے روکتا ہے۔

ایک دوسری وجہ عالمی دباؤ بھی ہے یہ دباؤ بہترین انداز سے اثر انداز ہوتا ہے،عالمی طاقتیں دیگر ممالک کوغیر قانونی  ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کی مذمت کرتے ہیں، جس کے بعد ان پر معاشی اور اقتصادی پابندیاں کردی جاتی ہیں، اس سے ملکی معیشت شدید متاثر ہوتی ہے۔ لہذا اس دباؤ کے سبب مختلف ممالک اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ختم کر دیتے ہیں، نارتھ کوریا اس کی بہترین مثال ہے ۔

آخر میں یکطرفہ معاہدے جو دوسرے ملکوں کے ساتھ اچھا کام کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اس کی بہترین مثال ایران کا ایٹمی معاہدہ ہے جو ایران پر بے شمار معاشی پابندیوں کے بعد ہوا تھا۔ جس کے بعد ایران پر لگائی گئی معاشی اور اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں اور ایران نے دوبارہ ترقی کی راہ پر قدم رکھا تھا۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div