Aaj News

جمعہ, اپريل 26, 2024  
17 Shawwal 1445  

صدیوں سے کوئٹہ والوں کیلئے خوف کی علامت “مَم” اب بھی زندہ ہے؟

کچھ مقامی لوگوں نے "مَم" کو دو اور کچھ نے چار ٹانگوں پر چلنے والی مخلوق بتایا ہے، جس کے لمبے ناخن، کالے گھنگھریالی بال اور ایک لمبی جھاڑی دار دم ہے.
اپ ڈیٹ 23 اگست 2022 06:09pm
اسٹاک فوٹوز
اسٹاک فوٹوز

بر صغیر (موجودہ ہندوستان اور پاکستان) ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں وقت کے ساتھ کثرت سے افسانوں اور کہانیوں نے جنم لیا۔ پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح کوئٹہ میں بھی مٹھی بھر مشہور افسانے نسل در نسل منتقل ہوئے ہیں۔ بے شک ان میں بڑے پیمانے پر مبالغہ آرائی شامل ہے۔

افسانوی کہانیوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، کچھ متاثر کن، کچھ افسانوی اور کچھ خوفناک۔

کوئٹہ کا سب سے مشہور افسانہ جو آج بھی مقامی مکینوں کی یادوں اور تاریک راتوں کی گفتگو کا حصہ ہوتا ہے، وہ “مَم کے مجسمے” سے جڑا ہے۔

کوئٹہ میں نصب “شیطانی مخلوق” کے مجسمے کی کہانی

کہانیوں کے مطابق “مَم” ایک شیطانی مخلوق تھی جس کا اوپری جسم انسانی مادہ اور نچلا جسم شیر یا کسی اور جنگلی جانور کا ہوتا تھا۔ کچھ مقامی لوگوں نے “مَم” کو دو اور کچھ نے چار ٹانگوں پر چلنے والی مخلوق بتایا ہے، جس کے لمبے ناخن، کالے گھنگھریالی بال اور ایک لمبی جھاڑی دار دم ہے۔

افسانوں کی مانیں تو “مَم” کوئٹہ کے پہاڑوں کے تاریک غاروں میں رہتی تھی اور زیادہ تر وادی ہنہ یا کوہ مردار کے پہاڑوں میں نظر آتی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ مَم نے شرارتی بچوں یا ان لوگوں کا شکار کیا جو غروب آفتاب کے بعد پہاڑی علاقے میں قیام کرتے تھے۔

 تصویر بزریعہ ٹریبیون
تصویر بزریعہ ٹریبیون

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مَم نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے مقامی کھیتوں سے بکریاں اور بھیڑیں غائب کیں۔

انیسویں صدی کی شروعاتی دہائی کے دوران یہ سمجھا جاتا تھا کہ شہر کے لوگ خاص طور پر مغرب کی اذان کے بعد اپنے دروازوں پر احتیاط برتتے تھے تاکہ مَم ان کے گھروں میں داخل نہ ہو۔

بچوں کو خاص طور پر اندھیرے کے بعد اندر رہنے کی ہدایت کی جاتی تھی، اور انہیں کہا جاتا تھا کہ مخلوق ان کو دیکھ لے گی تو اپنے غار میں لے جا کر انہیں کھا جائے گی۔

مَم کے مجسمے کی حقیقت

لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ مَم کی اس خوفناک کہانی کی شروعات ہوئی کہاں سے؟

مَم کے اس مجسمے کی بھی ایک علاقائی تاریخ ہے اور مَم کی کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔

مَم کا تعلق “اسفنکس” کے اس مجسمے سے ہے جو 19ویں صدی میں مری (کوئٹہ) قلعہ کے قریب زرغون روڈ کوئٹہ پر واقع تھا۔

 تصویر بزریعہ بلوچستان آرکائیو
تصویر بزریعہ بلوچستان آرکائیو

“اسفنکس” ایک مخلوق ہے جس کا سر ایک خاتون کا اور دھڑ شیر کا ہوتا ہے، یہ ایک قدیم فن کی نمائندگی کرتا ہے جو بادشاہوں کی وادی مصر میں واقع ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسفنکس کا سر بادشاہ خفری کے مجسمے کی تصویر ہے۔

یہ مجسمہ 1880 کی دہائی میں ایک عیسائی قبرستان میں ان مقتول فوجیوں کی یادگار کے طور پر بنایا گیا تھا جنہوں نے 1880 اور 1883 کے درمیان دوسری اینگلو افغان جنگ میں حصہ لیا تھا۔

برطانوی راج کے زمانے میں بلوچستان کا موجودہ دارالحکومت کوئٹہ ایک خوبصورت چھوٹا سا شہر تھا۔ یہ برطانوی ہندوستان کی سب سے مغربی چھاؤنی تھی اور اس کے زریعے افغانستان تک براہ راست رسائی تھی۔ بے عیب اور ترقی یافتہ مسافر خانے، چیری کے پھول اور کوئٹہ کی برف باری کی وجہ سے اسے “لٹل لندن” کا نام دیا گیا تھا۔

اس یادگاری مجسمے کو مقامیوں نے اس کے انسانی چہرے اور شیر کے جسم کی وجہ سے شیطان قرار دیتے ہوئے “مَم” کا نام دیا۔

برسوں بعد اس مجسمے سے جڑی کہانیوں نے جنم لینا شروع کیا اور آخر کار شہر میں مَم کا افسانہ پھیلنے لگا۔

1992 میں “کوئٹہ اسفنکس” کے اس مجسمے کو شہر میں کچھ سماجی و سیاسی بدامنی کے ردعمل کے طور پر ایک ہجوم نے تباہ کر دیا تھا۔

بہر حال، حالیہ برسوں میں، “مَم” ایک پرانی بات بن گئی ہے، اور اب صرف کوئٹہ کی سالوں پرانی یادوں اور ڈراؤنے خوابوں میں زندہ ہے۔

کیا “مَم” اب بھی زندہ ہے؟

برسوں پہلے منظر عام پر آنے والی ایک کہانی کے مطابق کسی فوجی نے مَم کو اس کے غار کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

کہانی کے مطابق مَم بظاہر ایک فوجی کو ہننا ویلی میں اپنے غار پر لے گئی تھی اور ساتھی فوجیوں نے اسے بچانے کے لیے مَم کا پیچھا کیا۔

جب وہ غار کے مضافات میں پہنچے تو اپنے ہتھیاروں سے مَم کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔

لیجنڈ کے مطابق انہوں نے اپنے کھوئے ہوئے ساتھی کو اس غار میں بے ہوش پایا جبکہ ایک اور افسانے کے مطابق انہیں اس فوجی کی آدھی کھائی ہوئی لاش ملی تھی۔

تاہم، کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا کہ مَم کی موت کی کہانی کتنی مستند ہے، شاید وہ اب بھی ان پہاڑوں میں رہتی ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ ابھی سو رہی ہو اور جاگنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کر رہی ہو۔

Mum of Quetta

Mythical creature

Myths of Balochistan

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div