Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

ریپ کو خدارا چسکا نہ بنائیں

یہ کونسی ذہنیت ہے، کیا تربیت ہے اور کیا سوچ ہے جو آپ ایسی گفتگو کرتے ہیں اور وہ بھی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر ہوکے؟
شائع 03 اپريل 2023 07:40pm
آرٹ ورک: عبیر/آج نیوز
آرٹ ورک: عبیر/آج نیوز

’اگر آپ ریپ کی مزاحمت نہیں کر سکتے تو پھر اس کے مزے لیں‘ نہ نہ یہ غلیظ جملہ متعرضہ ہمارا نہیں ہے۔ یہ اقوال زریں ہماری ایک روشن خیال سیاسی پارٹی کے اہم لیڈر کے ہیں۔

موصوف نے ایک حالیہ انٹرویو میں یوں تو اپنے منہ سے بیشمار پھول برسائے مگر جو کچھ انہوں نے ریپ کہ حوالے سے کہا وہ نہ قابل معافی ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ کیا کوئی ذی ہوش یہ کہہ سکتا ہے کہ اوّل تو آپ ریپسٹ سے مقابلہ کریں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ریپ کے مزے لیں۔

یہ کونسی ذہنیت ہے، کیا تربیت ہے اور کیا سوچ ہے جو آپ ایسی گفتگو کرتے ہیں اور وہ بھی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر ہوکے؟

اور ہاں پارٹی کی طرف سے ایک آدھ بیان کا آجانا کافی نہیں، باضابطہ کاروائی ہونی چاہیۓ۔ اس پارٹی کے تمام ارکان مرد و خواتین باقاعدہ اس کی مذمت کریں، میڈیا ان کا بائیکاٹ کرے اور عوام مسترد کریں۔ اور سب سے پہلے اس کے اپنے خاندان والے، خصوصاً خواتین عوام کے سامنے آکر اس کی مذمت کریں۔ ورنہ بات یہاں نہیں، جانے کہاں جا کے رُکے گی۔

ریپ کو خدارا چسکا نہ بنائیں۔ کہہ، لکھ اور بول بول کر عمر بِتا دی مگر لوگ ہیں کہ سُدھرنے پہ مائل ہی نہیں۔ میں نا مانوں کی یہ گردان کسی ایک مکتبہ فکر یا طبقہ کا وطیرہ نہیں۔

کیا میڈیا، سیاستدان، دیگر افراد، سب نے ریپ جیسے اذیت ناک فعل کو اپنی اپنی تربیت اور اقدار کے مطابق سمجھا اور پھیلایا۔

ایک مرحوم آمر نے رعونت سے پُر لہجے میں، نیویارک میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’پاکستان میں جب کسی عورت کو بیرون ملک کا ویزہ درکار ہوتا تو اس کے حصول کا آسان ترین طریقہ خود کو ریپ کروانا ہے۔‘

اُن کا اشارہ مختاراں مائی کی طرف تھا۔ ہائے رے تقدیر، مائی تو ملک سے نہ بھاگی مگر موصوف کو نہ صرف خود سا ختہ جلا وطنی کاٹنی پڑی، بلکہ رحلت بھی دیار غیر میں ہی پائی۔

ایک اورمقبول ترین لیڈر نے مردوں کو ریپ کی کھلی چھوٹ دے دی یہ کہہ کر کہ جب عورت ”کم“ کپڑے پہنے گی تو پھر مرد کوئی روبوٹ تو ہیں نہیں کہ اپنی نفسانی اور جنسی جذبات پہ قابو رکھ سکیں۔

جس معاشرے کے سیاستداں اور لیڈر ہی ریپ کو عوتوں کے لباس، ان کے ویزہ کے حصول سے لیکر جسمانی مزاحمت کی کمی سے جوڑتے ہوں اور ان بیانات پہ شرمندہ ہونا تو درکنار، مزید پھیلائیں، اس معاشرے میں محفوظ کون ہے؟

پھر ہم کہتے ہیں کے پتہ نہیں پاکستان عورتوں کے لئے دُنیا کے 146 ممالک کی فہرست میں 145ویں نمبر پر کیوں ہے؟

Rape

Nabeel Gabol

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div