Aaj News

پیر, اپريل 29, 2024  
21 Shawwal 1445  

بھارت میں ہندو انتہا پسندی بے نقاب کرنیوالی الجزیرہ ٹی وی ڈاکومنٹری پر پابندی

ڈاکومنٹری میں بھارت کی سالمیت کوخطرہ پہنچانے والا مواد موجود ہے، درخواست گزار
اپ ڈیٹ 17 جون 2023 08:52am
تصویر: الجزیرہ
تصویر: الجزیرہ

بھارتی عدالت نے الجزیرہ کی ملک میں ہندو انتہا پسند گروہوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے نفرت انگیز جرائم پر بننے والی تحقیقاتی ڈاکومنٹری کے نشر کرنے پر پابندی لگادی ہے۔

ریاست شمالی اُتر پردیش میں الہ آباد ہائیکورٹ نے بُدھ کے روز دوحہ میں قائم میڈیا نیٹ ورک الجزیرہ کی ڈاکومنٹری (Who Lit the Fuse) کو بھارت میں نشر کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ یہ بُرے نتائج مرتب کرسکتی ہے۔

بھارتی شہری کی جانب سے دائر فلم کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈاکومنٹری کو نشر کرنے سے اس کے بُرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جب تک اس پر غور کیا جارہا تب تک اس ڈاکومنٹری کو نشر نہیں کیا جائے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق درخواست گزار سُدھیر کمار نے الزام لگایا کہ اس ڈاکومنٹری میں شہریوں کے درمیان انتشار پیدا کرنے اور بھارت کی سالمیت کوخطرہ پہنچانے والا مواد موجود ہے۔

عدالت نے بھارتی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے کہ ڈاکومنٹری کو سوشل میڈیا پر نشر یا اس کی تشہیر نہ کی جائے جب تک کہ حکام کی جانب سے اس کے مواد کی جانچ مکمل نہیں کرلی جاتی ہیں۔عدالت نے کیس کی آئندہ سماعت 6 جولائی کو کرے گی۔

واضح رہے کہ الجزیرہ کی ڈاکومنٹری پوائنٹ بلینک تحقیقاتی سیریز کا حصہ ہے، جو بھارت میں ہندو انتہا پسند گروہوں جیسے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتہائی دائیں بازو کی نظریاتی سرپرست ہے۔

آرایس ایس ایک خُفیہ ملیشیا گروپ ہے، جس کے پورے بھارت میں لاکھوں کارکنان موجود ہیں جو جرمنی میں نازیوں سے متاثر تھے، جو1925 میں تشکیل دی گئی، اس کا مقصد آئینی طور پر سیکولر بھارت سے ایک نسلی ہندو ریاست بنانا ہے۔

اس گروہ پر1948 میں قیلیل مدت کے لئے پابندی عائد کردی گئی تھی جب اس کے ایک مشتبہ رکن نے انگریز راج سے بھارت کی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔

الجزیرہ کی دستاویزی فلم میں آر ایس ایس سے منحرف ہونے والوں کا انٹرویو دکھایا گیا ہے، جنہوں نے آر ایس ایس کے کیمپوں میں اپنے تربیتی سیشنوں کی تفصیلات ظاہرکی ہیں، جن کی مبینہ طور پر بھارتی فوجیوں نے نگرانی کی تھی۔

بھارتی ریاست آسام جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے، وہاں تقریباً 7لاکھ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انہیں نشانہ بناتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے، جبکہ 2019 میں شہریت سے متعلق قانون کی منظوری کے بعد سے آسام میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو اپنی قومی شناخت کھونے اور پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں جلاوطن کیے جانے کا خدشہ ہے۔

بی جے پی کے ایک ترجمان نے ڈاکومنٹری میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ہندو اکثریتی ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے پُرعزم ہے اور جن افراد پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام ہے انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے آر ایس ایس کا دفاع کرتے ہوئے اسے غیر امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہے، بشمول مسلمان، عیسائی، قبائلی لوگ اور تاریخی طور پر پسماندہ گروہ جن میں دلت بھی شامل ہیں۔

الجزیرہ کی دستاویزی فلم کے خلاف یہ اقدام بی بی سی کی ایک فلم پر لگائی گئی پابندی کی طرح ہے، جس میں مودی کے کردار پر سوال اٹھائے گئے تھے، جب وہ ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ جہاں 2002 میں فسادات کے دوران 1000 سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔

Narendra Modi

RSS

BJP

Al Jazeera Documentary

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div