Aaj News

اتوار, مئ 19, 2024  
10 Dhul-Qadah 1445  

آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت درج مقدمات سننے کیلئے خصوصی عدالت قائم

ملک بھرمیں ابھی صرف ایک ہی عدالت قائم کی گئی ہے
اپ ڈیٹ 21 اگست 2023 12:05pm
انسداد دہشت گردی عدالت نمبر1 کو خصوصی عدالت کا درجہ دیا گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت نمبر1 کو خصوصی عدالت کا درجہ دیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت قائم کردی گئی ہے، جس میں ملک بھر میں درج مقدمات کی سماعت ہوگی۔

آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت وفاقی دارالحکومت میں ملک کی پہلی اور واحد خصوصی عدالت قائم کردی گئی ہے۔

ملک بھر میں ابھی صرف ایک ہی عدالت قائم کی گئی ہے، انسداد دہشت گردی عدالت نمبر1 کو خصوصی عدالت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

خصوصی عدالت میں ملک بھر میں درج مقدمات کی سماعتیں ہوں گی، اور اے ٹی سی جج ابوالحسنات آفیشل سیکرٹ ایکٹ مقدمات کی سماعت کریں گے۔

عدالت میں مقدمات کی سماعت ان کیمرہ ہوگی۔ یعنی میڈیا کو اس کی کوریج کی اجازت نہیں ہوگی۔

آفیشل سیکرٹس ایکٹ (ترمیمی) بل کیا ہے؟

آفیشل سیکرٹس ایکٹ (ترمیمی) بل کے حوالے سے صدر عارف علوی کے دعوے کے بعد کئی سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔

صدر علوی نے اتوار کو کہا تھا کہ عملے نے ان کی حکم عدولی کی اور یہ کہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر انہوں نے دستخط نہیں کیے۔

ترمیمی بل میں حساس اداروں، مخبروں اور ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر

سیکشن 6 اے (غیر مجاز طور پر شناخت ظاہر کرنا) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہو گا۔

کون ملک کادشمن تصور کیا جائے گا؟

سیکشن 8 اے میں ”دشمن“ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’کوئی بھی وہ شخص جو بلواسطہ یا بلا واسطہ، جانے یا انجانے میں بیرونی قوت، ایجنٹ، نان اسٹیٹ ایکٹر، ادارے، ایسوسی ایشن یا گروپ جس کا مقصد پاکستان کے مفاد اور تحفظ کو نقصان پہنچانا ہو، اس کے ساتھ کام کرتا ہو‘۔

سیکشن 9 کے مطابق جرم پر اُکسانے، سازش یا معاونت کرنے والوں کو جرم میں شریک سمجھ کر وہی سزا دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: صدر اپنے اعمال کی ذمہ داری لیں، وزارت قانون نےعارف علوی کا دعوی مسترد کردیا

ایف آئی اے کے اختیارات

ترمیمی بل میں یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے گریڈ 17 یا اوپر کے افسر کو ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔

ڈی جے ایف آئی اے کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایف آئی اے اور حساس اداروں کے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا سکتے ہیں، مگر ایف آئی اے کو 30 روز میں تحقیقات مکمل کرنا ہوں گی۔

شواہد اور سامان کی ضبطگی

انٹیلی جنس ادارے (آئی بی اور آئی ایس آئی) شک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے دستاویزات، نقشے، ماڈل، آرٹیکل، نوٹ، ہتھیار یا الیکٹرانک آلات ضبط کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے مجاز ہوں گے۔

ایسی الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات یا دیگر مواد جو تحقیقات کے دوران حاصل کیے گئے اور ان سے جرم کے ارتکاب میں سہولت کاری کی گئی، انہیں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔

حساس علاقوں تک رسائی

سیکشن 3 کا نام ”جاسوسی کی سزا“ سے بدل کر ”جرائم“ رکھا جا رہا ہے۔

موجودہ جرائم میں معمولی ترامیم کے ساتھ اس نے ممنوعہ علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعے تصویر کشی کو بھی جرم کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں درج ہے کہ ممنوع علاقوں کی جانب پیشرفت، داخلہ یا حملے کی منصوبہ بندی کرنا جرم تصور ہوگا، اور ”ان مینڈ وہیکل“ یا ڈرون کی مدد سے ممنوع علاقوں کا جائزہ لینے پر پابندی ہوگی۔

اس کے تحت افواج کی صلاحیت سے جڑی کسی سرگرمی، دستاویزات، ایجاد یا ہتھیار وغیرہ تک غیر مجاز رسائی غیر قانونی ہوگی۔