Aaj News

اتوار, نومبر 10, 2024  
08 Jumada Al-Awwal 1446  

بھارتی حکومت نے شہریت کے متنازع قانون پر عمل کا اعلان کردیا

یہ ایکٹ بھارت کی پارلیمانی تاریخ کے متنازع ترین قوانین میں سے ایک ہے.
اپ ڈیٹ 12 مارچ 2024 12:40pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

بھارتی حکومت نے شہریت کا متنازع ترمیمی ایکت ’ سی اے اے’ نافذ کر دیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیر کو ایکس پوسٹ پر شب 12 بجے اس نفاذ کی اطلاع دی۔

شہریت کے اس ترمیمی ایکٹ کے تحت اُن ہندوؤں ، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں، بودھ اور جین مت کے ماننے والوں اور دوسروں کو بھارتی شہریت دی جاسکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ممالک جیسے کہ افغانستان،بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر بھارت آئے ہوں۔

مودی سرکار نے نے شہریت کے اس متنازع قانون کے نفاذ کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب ملک بھرمیں رمضان کا آغازہوچکا ہےجبکہ چند روز میں بھارت میں عام انتخابات کا اعلان بھی متوقع ہے۔

یہ ایکٹ بھارت کی پارلیمانی تاریخ کے متنازع ترین قوانین میں سے ایک ہے۔ وزیرِ داخلہ امت شاہ نے 9 دسمبر 2019ء کو لوک سبھا میں شہریت کا ترمیمی بل پیش کیا تھا جسے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کیا گیا تھا۔اس قانون کے خلاف ٓ بھارت میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔

وزیر اعظم کے دفترکے ترجمان نے کا کہنا ہے کہ ، ’مودی حکومت شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کا اعلان کرتی ہے‘۔ ترجمان نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے 2019 کے انتخابی منشورکاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ 2019 کے انتخابی منشور کا لازمی حصہ تھا۔ یہ ایکٹ بھارت میں مظلوموں کے لیے شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموارکرے گا۔’

وزارت داخلہ کے مطابق بھارتی شہریت کی رخواستیں ایک ویب پورٹل کے ذریعے جو فراہم کر دیا گیا ہے، آن لائن رجسٹرکی جائیں گی۔

سیکولر آئین کے حامل بھارت میں مذہبی امتیاز کرنے والے اس قانون پر سخت تنقید بھی کی جارہی ہے تاہم بی جے پی کا موقف ہے کہ یہ قانون دراصل ان اقلیتوں کے لیے ہے جنہیں اور کہیں پناہ نہیں مل سکتی

بھارتی مسلم گروپوں کا ماننا ہے کہ یہ قانون شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کربھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک کرسکتا ہے اور خدشہ ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔

اس قانون کے مسلم مخالف ہونے کی تردید کرتے ہوئے بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ملکوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا مقصد شہریت دینا ہے نہ کہ کسی سے چھیننا۔

واضح رہے کہ نریندر مودی نے 2014 میں اقتدارسنبھالا تھا جس کے بعد سے ترقی، معاشی بہبود، انفراسٹرکچر کے فروغ اور جارحانہ ہندو قوم پرستی پر توجہ سے ان کی گرفت خاصی مضبوط ہوئی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ بھارت میں مئی میں ہونے والےعام انتخابات میں مودی ہی آسانی سے اکثریت حاصل کر لیں گے۔

بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے یہ اعلانقریب آتے الیکشن کی وجہ سے کیا ہے۔

کانگریس ترجمان جیرام رمیش نے ایکس پوسٹ میں لکھا، ’ قواعد کے نوٹیفکیشن کے لیے 9 بارتوسیع کی کوشش کے بعد،انتخابات سے پہلے کا وقت واضح طور پر الیکشن پولرائز کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، خصوصاً مغربی بنگال اور آسام میں۔’

واضح رہے کہ مغربی بنگال اور آسام کی مشرقی ریاستوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، وہاں اس ایکٹ کیخلاف مظاہرے ہوئے ہیں کیونکہ کچھ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ اس قانون کا استعمال انہیں پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین قرار دینے اور انکی بھارتی شہریت کو ختم کرنے کےلیے بھی کیاجاسکتا ہے۔

india

CAA

MIGRANT LAW