سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ رولز 2025 میں ترامیم متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں جب کہ سپریم کورٹ نے سینئر ایڈووکیٹ کا اسٹیٹس محمد منیر پراچہ کو دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے ججز نے شرکت کی ، اجلاس میں سپریم کورٹ رولز 2025 میں ترامیم اور سینئر ایڈووکیٹس کے اسٹیٹس سے متعلق امور زیر بحث آئے۔
اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا، جس کے مطابق ترامیم کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کی گئیں۔ یہ کمیٹی سپریم کورٹ رولز 2025 کے آرڈر I کے رول 1(4) کے تحت قائم کی گئی تھی تاکہ رولز پر عملدرآمد کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنے کے لیے سفارشات پیش کی جا سکیں۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹی جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل تھی، جنہوں نے سپریم کورٹ رولز 1980 کا باریک بینی سے جائزہ لیا، سپریم کورٹ رولز 2025 کا مسودہ تیار کیا اور قوانین میں موجود پیچیدگیوں کو دور کرنے سے متعلق تجاویز مرتب کیں۔
فل کورٹ نے ہر رکن کی انفرادی طور پر مخلصانہ محنت کو سراہا اور ان کے کردار کو ’’اہم اور قابلِ تحسین‘‘ قرار دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز 2025 میں کی گئی اپ ڈیٹس کا مقصد بہتر سروس ڈلیوری، عدالتی نظام میں بہتری اور عوام کو سستا و جلد انصاف فراہم کرنا ہے۔
فل کورٹ نے متفقہ طور پر ایڈووکیٹ محمد منیر پراچہ کو سپریم کورٹ رولز 2025 کے آرڈر IV کے رول 5 کے تحت سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کا درجہ دینے کی منظوری بھی دی۔
فل کورٹ نے اعلان کیا کہ سپریم کورٹ رولز 2025 کو باضابطہ طور پر اَپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے لیے قانونی مسودے کا ابتدائی خاکہ تیار کر لیا ہے، جس میں ملک کے آئینی و دفاعی ڈھانچے میں اہم تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ ترمیم کے تحت ’کمانڈر آف ڈیفنس فورسز‘ کا نیا عہدہ متعارف کرانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کا مقصد تینوں مسلح افواج کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور متحد کمانڈ کو یقینی بنانا ہے۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی جگہ نو رکنی آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے ججوں کی عمر کی بالائی حد 68 سے بڑھا کر 70 سال کرنے کی سفارش بھی شامل ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں ڈیڈلاک کی صورت میں یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے سپرد کیا جائے گا۔
مجوزہ ترمیم میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں صدر اور وزیراعظم کا کردار کم کرنے جبکہ جوڈیشل کمیشن کا کردار بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ترمیمی مسودے میں وفاق کو صوبوں کے شیئر سے مزید دس فیصد حصہ دینے کی تجویز شامل ہے۔
اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبے دوبارہ وفاق کو دینے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی بلدیاتی اداروں کو آئینی طور پر مزید بااختیار بنانے پر فی الحال آمادہ نہیں، تاہم اس حوالے سے تجاویز پر مزید مشاورت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ترمیمی بل آج ایوانِ بالا میں پیش بھی کیا جانا تھا، تاہم پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کے جاری مشاورتی عمل کے باعث اس فیصلے کو بھی کل تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔
سی ای سی کا اجلاس آج بعد نمازِ جمعہ دوبارہ طلب، 27ویں آئینی ترمیم میں صوبے کے حصے میں کمی کو مسترد کرتے ہیں تاہم آرٹیکل 243 کی حمایت کریں گے، بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں تبدیلی تسلیم کرنے سے انکار کردیا، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں صوبے کے حصے میں کمی کو مسترد کرتے ہیں تاہم آرٹیکل 243 کی حمایت کریں گے۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی اور شیری رحمان آج اسلام آباد نہیں جائیں گے، جب کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ستائیسویں آئینی ترمیمی بل بھی آج پیش نہیں کیا جائے گا۔
سی ای سی کا اجلاس آج (جمعہ) بعد از نمازِ جمعہ دوبارہ طلب کیا گیا ہے، جس میں مزید مشاورت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
جعمرات کو پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلاول ہاؤس کراچی میں ہوا، جس کی صدارت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی۔
اجلاس میں حکومت کی مجوزہ 27 ویں ترمیم پر غور کیا گیا تاہم پیپلزپارٹی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور سی ای سی اجلاس جمعے کی نماز کے بعد دوبارہ طلب کرلیا گیا۔
اجلاس کے پہلے سیشن کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں صوبے کے حصے میں کمی کی سفارش کو مسترد کرتے ہیں، حکومت نے آرٹیکل 243 میں تبدیلیوں کا سوچا ہے ہم اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آج پھر سی ای سی کا اجلاس ہوگا جس میں آئینی عدالت کے قیام پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وزیر اعظم کی قیادت میں ن لیگ کا وفد آیا اور 27 ویں ترمیم کے لیے حمایت مانگی تھی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ حکومتی وفد کی آمد کے بعد سی ای سی کا اجلاس بلایا گیا، آئین میں جو این ایف سی کے تحفظ کے خاتمے والی شق ہے اُس کا خاتمہ کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے، آرٹیکل 243 کے علاوہ باقی تمام پوائنٹس کو ہم نے مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے مزید گفتگو آج سی ای سی کے اجلاس میں ہوگی۔
پیپلز پارٹی کا صوبائی خود مختاری اور این ایف سی پر لچک دکھانے سے انکار
قبل ازیں مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کونسل (سی ای سی)کے اجلاس میں گورنر خیبرپختونخوا، وزیراعلیٰ، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و قائدین شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ صدر مملکت آصف علی زرداری بھی اجلاس میں موجود تھے۔
اجلاس میں سینیٹ چئرمین یوسف رضا گیلانی، قائم علی شاہ، قادر پٹیل، قادر بلوچ، امجد حسین ایڈوکیٹ، نفیسہ شاہ، گورنر گلگت بلتستان مھدی شاہ، قمر زمان قائرہ اور نیئر بخاری، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر، راجا پرویز اشرف، رضا ربانی بھی شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے 5 نکاتی ایجنڈے سے سی ای سی کو آگاہ کیا اور بتایا کہ کوئی باقاعدہ لکھا ہوا ڈرافٹ موجود نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد نکات تیار کیے، پیپلزپارٹی صوبائی خود مختاری اور این ایف سی پر لچک دکھانےکو تیار نہیں۔
اراکین نے واضح کیا کہ کسی صورت میں اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک نہیں ہونا چاہیے، مختلف محکمہ صحت اور تعلیم کی واپسی ناممکن عمل ہے۔
ذرائع کے مطابق این ایف سی اوارڈ کی شیئرنگ کا فارمولا بھی طے ہے، پیپلزپارٹی 243 پر متفق نظر آتی ہے، آئینی کورٹ کی تشکیل اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر 70 فیصد اتفاق ہوا ہے۔
قبل ازیں اجلاس میں شرکت کے وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا کہ آج پی پی پی کی سی ای سی لا اجلاس ہورہا ہے، جس میں صدر مملکت اور بلاول بھٹو بھی شریک ہیں۔
شازیہ مری نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم پر مؤقف واضح ہے، اٹھارویں ترمیم رول بیک ہونے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی، پیپلز پارٹی صوبوں کو دیے اختیارات واپس نہیں لے سکتی، پیپلز پارٹی صوبوں کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے نہیں آیا، مجوزہ ترمیم میں صوبوں سے متعلق کوئی بات ہوگی تو ہمارا مؤقف سامنے ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ سے ستائیس ویں آئینی ترمیم کا مسودہ آج منظور ہونے کا امکان ہے، ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی کابینہ کو ستائیس ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر بریف کیا جائے گا جس کے بعد وفاقی کابینہ آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے گی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے، جس کے مطابق قومی اسمبلی میں ہونے والے پارلیمانی پارٹی اجلاس کی صدارت پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کی، اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ سمیت پارٹی قیادت نے شرکت کی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے بھی خصوصی طور پر اجلاس میں شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر غور ہوا، 27 ویں آئینی ترمیم اور پارلیمانی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ 27 ویں آئینی ترمیم صوبائی خود مختاری پر حملہ اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے، اسے ہر سطح پر مسترد کیا جائے گا۔
اعلامیہ کے مطابق ارکان نے واضح کیا کہ پاکستان تحریک انصاف ملک میں آئین، جمہوریت اور وفاقی اکائیوں کے حقوق کی محافظ ہے، اور کسی بھی غیر آئینی ترمیم کو منظور نہیں ہونے دے گی۔ پارلیمانی پارٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فوری طور پر اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی کی جائے تاکہ ایوان میں حقیقی جمہوری توازن بحال ہو۔
بانی پی ٹی آئی سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی ملاقات کے لیے قرارداد منظور کرتے ہوئے وفاقی اور پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ملاقات کا فوری انتظام کریں۔
اس موقع پر پارٹی رہنماؤں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ “ملک کی تمام جمہوریت پسند قوتوں کو غیر آئینی ترمیم کے خلاف متحد ہونا ہوگا، 1973 کا آئین پاکستان کا متفقہ معاہدہ ہے، اس پر کسی کو ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، موجودہ پارلیمان فارم 47 کی پیداوار ہے اور کسی آئینی ترمیم کا اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔
بیرسٹر گوہر نے 27 ویں آئینی ترمیم کو وفاق کا صوبوں پر حملہ قرار دے دیا
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے 27 ویں آئینی ترمیم کو وفاق کا صوبوں پر حملہ قرار دے دیا اور کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم آئین اور پارلیمنٹ کی روح کے منافی ہے، ملک کی سالمیت کو خطرے میں نہ ڈالا جائے، ہم اپنا رسپانس پارلیمنٹ میں دیں گے۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پورے ملک میں ہلچل ہے کہ وفاق صوبوں پر حملہ آور ہو رہا ہے، موجودہ حکومت نے 16 نشستوں کے ساتھ حکومت سنبھالی تھی۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین میں ترمیم کرنا ایک سنجیدہ معاملہ ہے، بھارت کے آئین میں اب تک 106 ترامیم ہوئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قوم کی ضرورت کے مطابق ترمیم ہوتی ہے، 18 ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی، جس پر لوگوں نے خوشیاں منائیں اور 26 ویں ترمیم کی 4 شقوں پر ہمیں شدید اعتراض ہے۔
حکومت کو مخاطب کرکے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اب آپ وفاق کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، 27 ویں ترمیم وفاق کے لیے خطرہ ہے، صوبے انتظار کر رہے ہیں 11واں این ایف سی ایوارڈ کب آئے گا۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم احتجاج کے طور پر اپنی آواز ایوان میں اٹھائیں گے، قوم بہت تقسیم ہوچکی ہے، خسارہ ٹاپ پر ہے، حکومت ہوش کے ناخن لے، آئین میں ترمیم اس ایوان کا حق ہے مگر ان لوگوں کا حق ہے جو مینڈیٹ لے کر آئے ہیں، آپ کے پاس تو مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی آئیں اپنی سیٹ سنبھال لیں، ہم نے 74 اراکین اسمبلی کے ساتھ درخواست دی ہے، ان کی ایوان اور جمہوریت کے لیے بڑی قربانیاں ہیں لہٰذا ان کا نوٹی فیکیشن کریں، ہم نے اپوزیشن لیڈر کے لے درخواست دی ہے لہٰذا محمود خان اچکزئی ہمارے اپوزیشن لیڈر ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ رائٹ آف اپیل دیا جائے، یہ لوگوں کا حق ہے کہ 45 دنوں میں اپیل کا حق دیا جائے، پنجاب کی حکومت نے خیبرپختونخواکو گندم کی ترسیل پر پابندی لگائی ہے، خیبرپختونخوا میں آٹے کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ وزیراعظم نے 20 مہینوں میں 34 غیرملکی دورے کیے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی، ہم اسپیکر سے کہتے ہیں رولنگ دے دیں۔
جمہوریت کو کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے، سہیل آفریدی
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میرا حق ہے، ملاقات کی اجازت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا، عدالتی احکامات پر عمل نہ ہوا، عدالت کے حکم کے باوجود عمران خان سے ملاقات نہیں کروائی گئی۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ جمہوری راستہ اختیار کررہا ہوں، میں عمران خان سے ملاقات کے لیے آواز اٹھاؤں گا، کل میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوگی۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے مزید کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم صوبائی خودمختاری پر ڈاکہ ہے اور ہم صوبائی خودمختاری پر کسی قسم کے حملے کو برداشت نہیں کریں گے جب کہ جمہوریت کو کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف جمہوریت اور آئین کی محافظ ہے، وفاقی حکومت کے پاس این ایف سی شیئر خیبرپختونخوا کا 19.4 فیصد بنتا ہے، وفاق سے ہمارا ساڑھے سات ارب روپے سے زیادہ کا حق بنتا ہے۔
سہیل آفریدی نے مزید کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری برقرار رہنی چاہیے، صوبوں کو ان کے جائز حقوق ملیں، خیبرپختونخوا نے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، ہمارے شہداء نے ملک کے لیے جانیں قربان کیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم لانے کا اعلان کردیا ہے، جس کے لیے اتحادی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا آغاز کردیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 6 نومبر کو پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس طلب کرلیا ہے، جس میں 27ویں آئینی ترمیم کی حمایت سے متعلق فیصلہ کیا جائےگا۔
آئین میں 27 ویں ترمیم کے معاملے پر اراکین پارلیمنٹ آئینی ترمیم کی تفصیلات سے بے خبر ہیں، آئینی ترمیم کی تفصیلات سے صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت آگاہ ہے۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری 6 نومبر کو اپنی جماعت کے اراکین کو ترمیم کی شقوں سے آگاہ کریں گے اور پارٹی سی ای سی میں مسودہ رکھیں گے جب کہ وزیراعظم شہباز شریف کے علاوہ صرف چند وزرا ہی مسودہ سے آگاہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف اگلے دو دن میں دیگر اتحادی جماعتوں کو ترمیم کے مسودہ سے اگاہ کریں گے، وزیراعظم کی طرف سے حکومتی اراکین پارلیمنٹ کا اجلاس جلد بلایا جایے گا، جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اراکین کو مجوزہ ترمیم پر بریفنگ دیں گے۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان نے 27 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کردیا
دوسری جانب تحریک تحفظ آئین پاکستان نے 27 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کردیا۔ رہنماؤں نے آئینی ترمیم تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم نیا پینڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہے، پیپلز پارٹی اس میں برابر کی شریک ہے، عوام کو دکھایا کچھ جا رہا ہے مگر پس پردہ کچھ اور ہے، ملک میں کئی عرصے سے جبر کا نظام مسلط ہے اب اس ترمیم کے بعد ملک میں مزید اندھیر نگری پھیل جائے گی
تحریک تحفظ آئین پاکستان کا اہم اجلاس تنظیم صدر محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہوا۔ اسد قیصر ، مصطفی نواز کھوکھر،زبیر عمر، علامہ ناصر عباس، تیمور جھگڑا و دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا آج پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کا ویژن ختم ہوچکا ہے۔ آج کی پیپلز پارٹی نے ذولفقار علی بھٹو کا ویژن دبا دیا ہے، مجوزہ27آئینی ترمیم عدلیہ پر سیدھا اٹیک ہے ایسی ترمیم کے بعد ان عدلیہ سے کون انصاف کی امید رکھے گا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں سے ملک میں جبر کا نظام نافذ ہے، 26ویں ترمیم نے اندھیر نگری مچائی اور 27ویں ترمیم ملک کی بنیادیں ہلا دے گی، اس کے ذریعے ججز کی پوسٹنگ کو انتظامی افسران کی طرز پر کرنے کی تیاری ہے جو عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے، حکومت آئین و قانون کو اسٹیبلشمنٹ کے تابع بنانے جا رہی ہے، ہم وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی کو ساتھ ملا کر اس ترمیم کو کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گے۔
زبیر عمر نے نواز شریف سے اپیل کی کہ وہ 26ویں اور 27ویں ترامیم پر کھل کر مؤقف دیں اور اپنے بھائی کو اس اقدام سے روکیں۔
انہوں نے کہا گزشتہ روز وزیروں کی پریس کانفرنس میں عوامی مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت جیسے مسائل نظرانداز کیے گئے۔
جماعت اسلامی کا 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف مزاحمت کا اعلان
ادھر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف مزاحمت کا اعلان کردیا۔
ادارہ نور حق کراچی میں پریس کانفرنس میں حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ اپنی سہولت اور کرسی مضبوط کرنے کے لیے اس طرح کی ترامیم آئین سے کھلواڑ ہے، نہ ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول کیا تھا نہ 27 ویں آئینی ترمیم کو قبول کریں گے۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت 27ویں آئینی ترمیم خود لا رہی ہے، کوئی ”پیراشوٹ ترمیم“ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم پر اتحادی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور جو فائنل ڈرافٹ ہوگا، وہ سامنے لایا جائے گا۔
سینیٹ کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت 27ویں آئینی ترمیم لانے جا رہی ہے، جو آئین اور قانون کے مطابق پیش کی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو کسی قسم کا خدشہ نہیں، بحث بھی ہوگی اور تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک نکتے پر اتفاق ہو چکا ہے، اب باقی اتحادیوں سے بھی مشاورت مکمل کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ آئینی ترمیم سب سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے اور وزیرقانون کو بھی یہ تجویز دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی بنا کر آئینی ترامیم کو زیربحث لایا جائے گا، تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر ترمیم کو حتمی شکل دی جائے گی۔ جو فائنل ڈرافٹ ہوگا، وہ سامنے آجائے گا۔
اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ 27ویں ترمیم حکومت خود لا رہی ہے، کہیں سے ’پیراشوٹ‘ نہیں ہو رہی۔ ہم نے 58 ٹوبی کے خاتمے جیسے بڑے فیصلے بھی دیکھے ہیں، یہ ترمیم بھی اسی جمہوری تسلسل کا حصہ ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر ایوان کا حصہ ہیں، ان کی تعیناتی چیئرمین سینیٹ کی ذمہ داری ہے، حکومت اس عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ اکثریت کی بنیاد پر اپوزیشن لیڈر بنتا ہے، تقاریر سے نہیں۔
اسحاق ڈار نے چیئرمین سینیٹ سے اپیل کی کہ وہ جلد از جلد اپوزیشن لیڈر کی تقرری کا فیصلہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوان کے امور کو ذاتی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ انداز میں لینا چاہیے، کاغذ پھاڑنے جیسے رویے درست نہیں، تمام معاملات کو پروفیشنل انداز میں دیکھا جائے۔
نائب وزیراعظم اظہارِ خیال کرتے ہوئے مزید کہا کہ عجلت میں کچھ نہیں کیا جائے گا، ہر فریق کو بات کرنے کا موقع دیا جائے گا اور پارلیمانی عمل مکمل طور پر فالو کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ وہ حال ہی میں غزہ سے متعلق اجلاس میں شریک تھے اور پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی ٹویٹ بھی دیکھ چکے ہیں۔ ہم سب کو مل کر پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا ہے، حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
آج نیوز کے نمائندے نوید اکبر کے مطابق وفاقی حکومت نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم 7 نومبر کو سینیٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم پر دونوں ایوانوں میں جمعہ اور ہفتہ کے روز بحث کرائی جائے گی، جب کہ سینیٹ کا اجلاس چھٹی کے دن بھی جاری رہے گا۔
ترمیم پیش ہونے کے بعد بل کو متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا، جس کی منظوری 10 نومبر تک متوقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ کا اجلاس 14 نومبر تک جاری رہے گا تاکہ ترمیم پر تمام مراحل مکمل کیے جا سکیں۔
وفاقی حکومت 27 ویں آئینی ترمیم لانے کے لیے متحرک ہوگئی جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 27 ویں آئینی ترمیم کے لیے مزید اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم کے لیے سیاسی مشاورت کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے آئینی ترمیم کے معاملے پر مزید اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ابتدائی سطح کی گفتگو کے بعد اب حکومت ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ق) سمیت دیگر اتحادی جماعتوں سے بھی باضابطہ رابطے کرے گی۔ اسی سلسلے میں آئی پی پی، اے این پی اور جے یو آئی (ف) سے بھی مشاورت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات پر ابتدائی خدوخال تیار کر لیے گئے ہیں، جن پر سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ ترمیم کا اہم حصہ آرٹیکل 243 میں تبدیلی سے متعلق ہے جب کہ تعلیمی امور کو دوبارہ وفاق کے اختیار میں لانے کی تجویز بھی شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ ترمیم میں آئینی عدالت کے قیام، این ایف سی ایوارڈ اور الیکشن کمیشن سے متعلق شقوں میں تبدیلیاں بھی زیرِ غور ہیں۔
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ ترمیمی پیکیج کو حتمی شکل دی جائے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آنے والے دنوں میں اس سلسلے میں رابطوں اور بیانات میں مزید تیزی متوقع ہے۔
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بدھ کی شام 4 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب
دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بدھ کی شام 4 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کرلیا ہے۔
اجلاس میں قومی اسمبلی اجلاس سے متعلق حکمت عملی طے کی جائے گی اور ساتھ ہی زیرغور آنے والے اہم معاملات پر بھی مشاورت ہوگی جب کہ اجلاس میں شرکت کےلئے تمام پارلیمانی سربراہان کو آگاہ کردیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ پہلے کرنے کا مطالبہ کردیا جبکہ جسٹس منیب اختر، پی ٹی آئی کے 2 ممبران جوڈیشل کمیشن اور وزیر قانون خیبرپختونخوا نے بھی جسٹس منصور شاہ کی رائے کی حمایت کردی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی کی صدارت میں جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا، جس میں مستقل چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے نام پر غور کیا گیا۔
جوڈیشل کمیشن اجلاس میں جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے اجلاس کی کارروائی کے دوران اعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ پہلے ہونا چاہیئے جبکہ جسٹس منیب اختر نے بھی جسٹس منصور علی شاہ کی رائے سے اتفاق کیا۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے 2 ممبران جوڈیشل کمیشن نے بھی جسٹس منصور شاہ کی رائے کی حمایت کی جبکہ وزیر قانون خیبرپختون خوا نے بھی جسٹس منصور علی شاہ کی رائے سے اتفاق کیا۔
سینیٹر علی ظفر کی میڈیا سے گفتگو
قبل ازیں پی ٹی آئی کے رکن جوڈیشل کمیشن سینیٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہی موقف رہا ہے کہ سینئر جج ہی کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ مقرر کیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز سنیارٹی کا معاملہ ابھی انٹرا کورٹ اپیل میں زیر التوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تو جوڈیشل کمیشن میں رائے ہوگی، جب تک ہائیکورٹ ججز کی سنیارٹی سے متعلق انٹرا کورٹ پر فیصلہ نہیں ہو جاتا، معاملہ زیر غور نہیں آنا چاہیے۔ اگر ہماری رائے نہ مانی گئی تو پھر ہم ووٹ کریں گے۔ ہم نے ووٹ پھر کسے کرنا ہے، یہاں نہیں بتاؤں گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تیسری بار صدر بننے کی خواہش کا اظہار کردیا ہے، حالانکہ امریکی آئین کی 22ویں ترمیم کے تحت انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ این بی سی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ اس کے لیے ”طریقے موجود ہیں“ اور یہ واضح کیا کہ وہ ”مذاق نہیں کر رہے۔“
اتوار کی صبح این بی سی نیوز سے فون پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ میں یہ کروں،‘ ان کا اشارہ اپنے اتحادیوں کی طرف تھا۔ ’لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ ابھی بہت وقت باقی ہے، یہ انتظامیہ کے لیے بہت ابتدائی مرحلہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ’اس وقت کی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ تیسری مدت چاہتے ہیں، تو ان کا جواب تھا، ’مجھے کام کرنا پسند ہے۔‘
جب این بی سی نیوز نے ان سے وضاحت طلب کی کہ آیا وہ واقعی سنجیدہ ہیں تو ٹرمپ نے کہا، ’میں مذاق نہیں کر رہا،‘ تاہم، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’اس پر بات کرنا ابھی بہت جلدی ہوگی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں ایسی کوئی حکمت عملی پیش کی گئی ہے جو انہیں تیسری مدت کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے سکے، تو ٹرمپ نے جواب دیا، ’ایسے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے یہ ممکن ہے۔‘
انہوں نے ایک ممکنہ حکمت عملی کے طور پر کہا کہ نائب صدر جے ڈی وینس صدارتی انتخاب لڑ کر جیتیں اور پھر عہدہ انہیں سونپ دیں۔ تاہم، جب ان سے کسی اور طریقے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا، ’نہیں۔‘
آئینی ترمیم کے ذریعے دو مدت کی حد کو ختم کرنا انتہائی مشکل ہوگا، کیونکہ اس کے لیے کانگریس کے دو تہائی اراکین یا دو تہائی ریاستوں کی منظوری درکار ہوگی، جس کے بعد تین چوتھائی ریاستوں کی توثیق ضروری ہوگی۔
ٹرمپ نے اپنی مقبولیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ میں تیسری بار بھی صدر بنوں۔‘
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے تیسری مدت کے امکان پر بات کی ہو۔ تاہم، ریپبلکن پارٹی کے بیشتر اراکین ان کے ان بیانات کو مزاح یا ان کے ناقدین کو چڑانے کا حربہ سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب، ٹینیسی سے ریپبلکن رکن کانگریس اینڈی اوگلز نے ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں صدارتی مدت کی حد میں توسیع کی تجویز دی گئی ہے، تاکہ ٹرمپ کو ایک اور مدت کے لیے انتخاب لڑنے کی اجازت دی جا سکے۔
ادھر، ٹرمپ کے اتحادی اسٹیو بینن نے نیوز نیشن کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ٹرمپ 2028 میں دوبارہ انتخاب لڑیں گے اور جیتیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے تیسری مدت حاصل کرنے کے لیے ”کئی متبادل طریقے“ موجود ہو سکتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے بھی ٹرمپ کے بیانات کو مزید تقویت دی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے نیویارک میں ٹریفک کنجیشن چارج ختم کرنے کے بعد ایک فرضی میگزین کا سرورق شائع کیا گیا، جس میں ٹرمپ کو تاج پہنے ہوئے دکھایا گیا۔ اس پوسٹ میں ٹرمپ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہے گئے الفاظ دہرائے گئے: ”بادشاہ سلامت زندہ باد!“
کراچی بار کونسل نے 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی۔
کراچی بار کونسل نے سپریم کورٹ میں 26 آئینی ترمیم کے خلاف وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے درخواست دائر کی ہے جس میں چاروں صوبوں وفاقی، الیکشن کمیشن، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔
کراچی بار کونسل نے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے، اس کے تحت بنائے گئے آئینی بنچز اور ان کے فیصلوں کو بھی ختم کیا جائے، 26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
بار کونسل نے درخواست میں مزید کہا ہے کہ 26 آئینی ترمیم بنیادی حقوق کے برخلاف ہے۔
اس سے قبل منگل کے روز سنی اتحاد کونسل نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کی 26ویں ترمیم 2024 غیر آئینی، غیر قانونی، اور ناقابل عمل ہے۔
اپنی درخواست میں سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے موقف اپنایا تھا کہ مذکورہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت غیر قانونی اور ناقابل عمل ہے، جس سے آئین کی اہم خصوصیات اور بنیادی اقدار ختم ہوگئی ہیں۔
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ایک اور درخواست دائر کر دی گئی، جس می آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار کے سابق 8 صدور کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر دائر کردی گئی جبکہ درخواست سردار لطیف کھوسہ اور بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے دائر کی گئی۔
درخواست گزاروں میں حامد خان، امان اللہ کنرانی، عابد حسن منٹو، علی احمد کرد، اکرم شیخ، قاضی محمد انور، منیر اے ملک اور عابد زبیری شامل ہیں۔
دائر درخواست میں موقف ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی آزادی سے متصادم اور اختیارات کی تقسیم کے اصول کے بر خلاف ہے، 26 ویں آئینی ترمیم مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ حتمی فیصلے تک 26 آئینی کے نتیجے میں ہونے والے تمام اقدامات کو معطل کیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کے معاملے پر درخواست گزار کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹادی۔
لاہور ہائیکورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی اعتراضی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے شہری نذیر احمد کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کررکھی تھی لیکن آپ نے ایک بھی دستاویز منسلک نہیں کی، یہ طریقہ کار غلط ہے کہ ایک مسئلے پر پورے ملک کی عدالتوں میں درخواستیں دائر کر دیں۔
بعدازاں عدالت نے درخواست گزار کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
اس سے قبل درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، ایسے میں لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔
درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ 26 ویں ترمیم آئین پاکستان کے دیباچہ کے برخلاف ہے اور آئین کے دیباچہ میں طے کردہ آزاد عدلیہ کے اصول کے خلاف ہے، سنیارٹی کا اصول نظرانداز کرکے بھی عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی گئی۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ جج یا بینچ کو کیس کی سماعت سے روکنا عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹ ہے، جوڈیشل کمیشن میں ممبران اسمبلی اور وزرا کی شمولیت عدلیہ کی خودمختاری پر وار ہے، ہائیکورٹ کے ججز کی مانیٹرنگ اور ہدایات جاری کرنا عدلیہ کی خودمختاری میں رکاوٹ ہے، چیف الیکشن کمشنر کی مدت میں توسیع آئین کے دیباچہ کے منافی ہے۔
شہری کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے۔
لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کے حوالے سے جسٹس فرخ عرفان خان کی نظر ثانی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر نمٹاتے ہوئے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ریمارکس دیے کہ مستقبل میں کسی اور مقدمے میں سینیارٹی کے اصول کا معاملہ طے کریں گے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کے حوالے سے جسٹس فرخ عرفان خان کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے درخواست گزار کے وکیل حامد خان سے دریافت کیا کہ آیا وہ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں، 4 ججز کے حوالے سے ایشو تھا یہاں تو ججز ریٹائر بھی ہوچکے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 5 لوگوں نے ایک ساتھ حلف اٹھایا تو عمر کے حساب سے سینیارٹی طے ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ عدالت کو اکیڈمک ایکسرسائز کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
وکیل حامد خان کا مؤقف تھا کہ ججز کا نوٹفکیشن ساتھ ہونے کے بعد اگر حلف ایک دن تاخیر سے بھی لیں تو سینیارٹی برابر ہی ہوگی۔
جسٹس فرخ عرفان نے امریکا میں ہونے کی وجہ سے چیف جسٹس کو آگاہ کر کے حلف ایک دن بعد اٹھایا۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ جج جب تک حلف نہیں اٹھاتا تب تک وہ جج نہیں ہوسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے دریافت کیا کہ انہوں نے نظرثانی کی درخواست دی ہے، فیصلے میں غلطی کیا ہے وہ بتائیں، اگر کوئی شخص نوٹیفکیشن کے ایک ماہ تک حلف نہیں لیتا اور بعد میں وہ انکار کر دے تو کیا ہوگا۔
اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بہتر ہے اس معاملے کو اوپن رکھیں کسی اور کیس میں طے کر لیں گے۔
عدالت نے نظر ثانی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر نمٹاتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں کسی اور مقدمے میں سینیارٹی کے اصول کا معاملہ طے کریں گے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
مولوی اقبال حیدر نے مؤقف اپنایا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب اس مقدمے کا نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملے کو دیکھا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے نے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں، امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔
سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔
بعدازاں آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار افس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کردی۔
سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست خارج
دوسری جانب عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیئے، آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے اور کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتہ نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے درخواست خارج کردی۔
سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار
ادھر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے تمام سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے تمام سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی درخواست میں استدعا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے انہیں فارغ کریں؟ آپ نے متعلقہ اداروں سے کیوں نہیں رجوع کیا۔
درخواست گزار نے کہا کہ کوئی نہیں سنتا، اس لیے سپریم کورٹ آیا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہرچیزلے کرسپریم کورٹ پہنچ گئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے کسی سرکاری افسران کی نشاندہی نہیں کی، کسی کا نام نہیں لکھا،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کون سا کام نہیں ہوا عدالت کو بتائیں، اس کا کیا مطلب ہے ہم صدر، وزیراعظم، اسپیکر اور پارلیمنٹرین سب کو نکال دیں، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ سسٹم تباہ ہو چکا ہے سچ کوئی نہیں سننا چاہتا۔
بعدازاں عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
ٹرائل مکمل کرنے کیلیے ٹائم فریم طے کرنے کا کیس
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے اعلیٰ عدالتی فورمزپرٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کے معاملے پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹائم لائن کے لیے پارلیمنٹ سے جاکر قانون سازی کروا لیں، جس پر درخواست گزار حسن رضا نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایسی عمومی باتیں نہ کریں اور الزام نہ لگائیں، سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے، آپ کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے، جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی ریفارمز کے لیے لا اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، وہاں رجوع کریں۔
بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست بھی خارج کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی قرار دینے اور آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل سمیت مجموعی طور پر 2 ہزار سے زائد مقدمات آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیے تھے۔
5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
26ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا تھا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔
جسٹس امین الدین کے تقرر کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا مشورہ دیا تھا، اجلاس کے دوران آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، کمیشن کے 12 میں سے 7 ارکان نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
سب سے پہلے تو تحریر کے عنوان کی وضاحت ضروری ہے کہ غیر آئینی ترامیم سے کیا مراد ہے؟ آئینی ترامیم تو وہ ترامیم ہوتی ہے کہ جس کو منظور کروانے کے لیے ایوان میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہوتی ہے اور غیر آئینی ترامیم وہ ترامیم ہوتی ہے کہ جس کو صرف سادہ اکثریت سے منظور کروایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر آئینی ترامیم غیر قانونی نہیں ہوتی حالانکہ کبھی کبھی اس کا شائبہ بھی ہوتا ہے بس اس کو منظور کروانے کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی اور سادہ اکثریت سے بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ایوان کے نمائندوں کیلئے مراعات کا قانون اور اشرافیہ کیلئے دیگر سہولیات کے قوانین مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔
اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی صحت، بھوک اور سہولیات کے لئے بھی کیا کوئی آئینی یا غیر آئینی ترامیم لائی جاسکتی ہیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سوال ناجائز بچے کی طرح ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس کا باپ بننا نہیں چاہتا اور ویسے بھی ہمارے ملک میں سوال پیدا کرنے والے کو معتوب ٹھہرایا جاتا ہے۔ سوال اگر زیادہ سنجیدہ اور حساس ہے تو لوگوں کو سوال کرنے والا بھی نظر نہیں آتا۔ کیوں؟
یہ بھی ایک سوال ہے اور چونکہ ہم سب نظر آنا چاہتے ہیں اس لئے یہ سوال چھوڑ دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی سوال اٹھاتا ہے تو سب مل کر اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے یہاں سب مل کر سوال اٹھانے والے کو ڈھونڈتے ہیں۔
تمام جمہوری اور غیر جمہوری ممالک میں اس بات کی سعی کی جاتی ہے کہ عوام کیلئے زندگی آسان کی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائے تاکہ وہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ ایسا ہم نے اپنے خطے اور دنیا بھر میں ہوتے دیکھا ہے۔ وہ ممالک جو کبھی صرف صحرا تھے یا دلدل تھے اور ہمیں حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے کوسوں آگے چلے گئے ہیں اور اب ہم ان کے در پر کاسہ گدائی لے کر منڈلانے کا کام کرتے ہیں۔ اگر ان کا دل کرتا ہے تو در کھول دیتے ہیں ورنہ دنیا نے تو ویسے بھی اب ہم پر اپنے دروازے بند کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ملک بنا ہی چند فیصد مراعات یافتہ لوگوں کی عیاشی اور سہولت کے لیے ہے۔ ان کیلئے تو یہ ملک جنت ہے جس کو چاہوں گاڑی سے کچل دوں، جتنا چاہوں دھوکہ دہی سے منافع حاصل کر لوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور پوچھے تو قیمت ادا کرکے آگے چل دوں۔ آپ ہی بتایئے کہ کیا دنیا میں ایسا کہیں ہوتا ہے؟ عوام کیلئے نا باعزت روزگار ہے، نا تعلیم اور نا صحت۔ ہاں یہ سب کچھ ہے اگر آپ کی جیب اس کی اجازت دیتی ہے تو دنیا کی ہر نعمت اس ملک میں حاصل کی جاسکتی ہے۔
کیا کوئی ایسی ترامیم لا سکتا ہے کہ اب سے اس ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، اب سے کوئی پیسے نہ ہونے پر علاج سے محروم نہیں رہے گا، اب سے ہر بچے کو تعلیم یکساں نصاب کے ذریعے دی جائیگی تاکہ آگے بڑھنے کے مواقع سب کیلئے یکساں ہوں، نہیں ایسی ترامیم سے حکمرانوں اور عوام میں فرق ختم ہونے کا خدشہ ہے اس لئے ایسی کو ترامیم نہ لانے پر حکومت، اس کے اتحادی اور حزب اختلاف سب متفق ہے اور ایسا کوئی نقطہ کبھی بھی اسمبلی میں بحث کیلے ایجنڈے پر نہیں آئے گا۔ ہاں ہر حکومت کے پاس مرنے والے کیلے دس یا بیس لاکھ ہے مگر زندوں کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے کہ اس کے تحت امداد لیتے رہوں اور ایک طفیلی کی زندگی بسر کرتے رہوں بس سوال مت کرنا کیونکہ سوال کرنا منع ہے۔
اس ساری بات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب حکومت اپنے ہی کسی فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوتی ہے تو اس کا نوٹس لے لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس کا فرض پورا ہوگیا۔ اس پر ایک لطیفے نما واقعہ اور اختتام۔ ویسے اس واقعے سے آپ کو ہماری اشرافیہ کی سوچ سمجھنے میں ضرور مدد ملے گی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب اپنے دوست کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے گئے۔ انھیں خود تو کرکٹ کی بہت سمجھ بوجھ تھی لیکن دوست بالکل کرکٹ کے معاملے میں کورا تھا۔ دونوں میچ دیکھ رہے تھے کہ یکایک لوگ زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔
جس دوست کو کرکٹ کی سمجھ نہیں تھی اس نے اپنے دوست کہ جسے کہ کرکٹ سے مکمل آگہی تھی پوچھا کہ کیا ہوا ہے کہ لوگ اتنی تالیاں کیوں بجا رہے ہیں؟ اس پر کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے دوست نے کہا فلاں کھلاڑی نے بہت اچھا کیچ پکڑا ہے۔ اس پر دوسرے دوست نے کہا تو پھر کیا ہوا۔ اس پر پہلے والے دوست نے کہا کہ تم شاید سمجھے نہیں اس نے ایک بہت شاندار کیچ پکڑا ہے۔ اس پر دوسرے دوست نے کہا کہ وہ وہاں کھڑا کیوں تھا؟ مگر ہم اور آپ یہ سوال نہیں کرسکتے کیونکہ سوال کرنا منع ہے۔
’آج نیوز‘ کا لکھاری سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
سہیل یعقوب نے 36 سال قومی اور کثیر القومی اداروں میں اعلی عہدوں پر خدمات سرانجام دی۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سماجی، علمی اور مذہبی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کا درس و تدریس کا بھی وسیع تجربہ ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان ایک اور درخواست میں دائر کی گئی ہے، جسے ڈائری نمبر بھی الاٹ کردیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی۔
درخواست گزاروں میں اظہر صدیق اور ایڈووکیٹ منیر احمد بھی شامل ہیں، سپریم کورٹ نے آئینی درخواست کو دائری نمبر بھی الاٹ کر دیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کا اختیار پارلیمان کے پاس بھی نہیں۔
درخواست گزار کے مطابق سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ بنیادی حقوق کو ختم یا کم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے عدلیہ کی آزادی سے متصادم ترمیم کالعدم قرار دی جائے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل نو پانے والے جوڈیشل کمیشن کو اجلاس منعقد کرنے سے روکا جائے۔
درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ صدر مملکت اور وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
قبل ازیں 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کے لیے 2 سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا، دونوں سینئر ججز نے اسی ہفتے چھبیسویں ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ کر دیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے تاہم 22 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔
آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175-اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔
واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ میں اس سے قبل بھی درخواست دائر کی گئی ہیں جس میں اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار سینیٹر حامد خان نے کہا ہے کہ کل کی ترامیم جمہوریت کے کتبے میں آخری کیل ہے، ہم کسی صورت 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے، ہم ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں۔ دوسری جانب صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کی گئی، سادہ اکثریت سے ایسے قوانین بنا رہے ہیں جنہیں ترمیم میں شامل نہیں کر سکے، حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ جج نہیں مل رہے، اسی لیے ترمیم کے ذریعے نئے ججز لائے جارہے ہیں۔
صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار سینیٹر حامد خان نے کہا کہ یہ لوگ رات کے اندھیرے میں شب خون مارنے جا رہے ہیں، صرف وکلا نہیں پاکستان کے عوام بھی بہت مشکل میں بیٹھے ہیں، کل کی ترامیم جمہوریت کے کتبے میں آخری کیل ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ کل ہونے والی ترمیم میں انہوں نے 5 سالہ توسیع کا دروازہ بھی کھولا، آمروں کے زمانے میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 5 سالہ توسیع کی گئی، حکومت کے لیے یہ توسیع دینا ضروری تھا تاکہ ان کی بھی توسیع ہوسکے، انہوں نے پارلیمنٹ کو غلام بنا دیا، اب عدلیہ کو بھی غلام بنانا چاہتے ہیں، یہ لوگ عدلیہ کا سارا اختیار اپنے پسندیدہ ججز کو دنیا چاہتے ہیں۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ہم کسی صورت 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے، سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں دائر ہو چکی ہیں، ہم ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان سے اپیل ہے کہ خدارا 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست جلد سے جلد سماعت کے لیے مقرر کریں، آج جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ بلا لی ہے، ہمیں نیتیں ٹھیک نظر نہیں آ رہیں۔
حامد خان نے کہا کہ پہلے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں غیر قانونی طور پر لوگوں کو غائب کیا جاتا تھا، اب پورے ملک میں قانونی طور پر غائب کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ جج نہیں مل رہے، اسد طور بٹ
دوسری جانب صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی اپروچ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کی گئی۔
اسد منظور بٹ نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا میرے 11 ممبران خریدے گئے، سادہ اکثریت سے ایسے قوانین بنا رہے ہیں جنہیں ترمیم میں شامل نہیں کر سکے، حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ جج نہیں مل رہے، اسی لیے ترمیم کے ذریعے نئے ججز لائے جارہے ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان نے 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، درخواست میں ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی، درخواست وکیل عمران شفیق کے ذریعے دائر کی گئی، جس میں وفاق سمیت چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے درخواست میں استدعا کی کہ 26 ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے لہذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ قرار دیا جائے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی صرف سینیارٹی کے اصول پر ہی ممکن ہے اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کا تقرر غیر آئینی ہے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم اختیارات کے تقسیم کے اصول کے منافی ہے، یہ کالعدم قرار دی جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ قرار دیا جائے کہ 26 ویں آئینی ترمیم بنیادی آئینی اساسات، قرارداد مقاصد، بنیادی حقوق سے بھی متصادم ہے۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیل میں تبدیلی اور آئینی بینچز کی تشکیل کا طریقہ کار بھی آئین سے متصادم قرار دیا جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے تاہم 22 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔
واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائیکورٹ میں اس سے قبل بھی درخواست دائر کی گئی ہیں جس میں اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت تے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیے کہ آئین عدلیہ کا نہیں پارلیمنٹ کا معاملہ ہے، آپ نے آئین کے آرٹیکل 239 کا جائزہ لیا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا دائرہ اختیار کیا ہے اس میں؟ ہمارے پاس سپریم کورٹ کے اختیارات نہیں ہیں، جو اختیارات ہائیکورٹ کے پاس ہے وہی کرسکتے ہیں، 2 فورمز نے کیسے عدلیہ کی آزادی متاثر کی ہے؟
بعد ازاں، سندھ ہائی کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔
یاد رہے کہ 22 اکتوبر کو 26 ویں آئینی ترمیم کو سندھ ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا تھا۔
سندھ ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف 2 درخواستوں کو یکجا کردیا جبکہ سماعت کل ہوگی۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک بار پھر درخواست دائر کردی گئی، سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
سندھ ہائیکورٹ میں بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 26 ویں ترمیم میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا گیا ہے، اس لیے یہ ترمیم آئینی حیثیت نہیں رکھتی اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے دونوں درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
درخواست گزار بیرسٹر علی طاہر کا کہنا تھا کہ یہ فوری نوعیت کا معاملہ ہے، اس لیے میری درخواست جلد سن لیں، جس پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ کل دونوں درخواستیں سن لیں گے۔
26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ملتوی
دوسری جانب دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عالیہ نیلم نے شہری نذیر احمد چودھری کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ 26 ویں ترمیم آئین پاکستان کے دیباچہ کے برخلاف ہے، آئین کے دیباچہ میں طے کردہ آزاد عدلیہ کے اصول کے خلاف ہے، سنیارٹی کا اصول نظر انداز کرکے بھی عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی گئی، جوڈیشل کمیشن میں ممبران اسمبلی اور وزرا کی شمولیت عدلیہ کی خود مختاری پر وار ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں دائر ہوچکی ہے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ 26ویں ترمیم حکومت کے گلے پڑے گی اور کسی کو کچھ نہیں ملے گا، 27 ویں ترمیم پر مولانا فضل الرحمان نے کال دی تو لگ پتہ جائے گا۔
اپنے ایک بیان میں سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آفریدی چیف جسٹس آیا ہے، آفریدیوں نے سکھوں، برٹش، روس اور امریکا کو شکست دی تھی، امید ہے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ملک میں انصاف کریں گے۔
شیخ رشید نے کہا کہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے، یہ جو خواب دیکھ رہے تھے سب چکنا چور ہو گئے، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ جو ہورہا ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور مولانا فضل الرحمان دو ہی آدمیوں نے عزت بڑھائی ہے باقی سب نے اپنی عزت پر جھا ڑو پھیرا ہے، مولانا فضل الرحمان نے 26 ترمیم کا جنازہ نکالا ہے، یہ ترمیم ن اور ش سب کے گلے پڑے گی ان کو کچھ نہیں ملے گا، 27 ویں ترمیم کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں، 27 ویں ترمیم کے خلاف مولانا فضل الرحمان کال دیں گے، 27 ویں ترمیم پر مولانا نے کال دی تو ان کو لگ پتہ جائے گا۔
شیخ رشید احمد نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے پھر کہوں گا کہ لوگوں کو معافی دیں، غریب آدمی کے لیے عدالتوں میں آنا آسان نہیں ہے۔
26 ویں ویں آئینی ترمیم کے بعد سندھ ہائیکورٹ کا اہم اقدام سامنے آیا ہے، متوقع آئینی بینچ، ریگولر بینچز کے لیے کیسز علیحدہ کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔
جس کے بعد سندھ ہائیکورٹ نے برانچز کو فائلوں کی کلاسیفیکیشن کرنے کی ہدایت جاری کردیں۔ واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ میں 21 ہزار آئینی درخواستیں زیر التواء ہیں۔
ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالت کو 21 ہزار آئینی کیسز کی کلاسیفیکیشن کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
اسسٹںٹ رجسٹرار کے مطابق آئینی کیسز کی نشان دہی کرکے درست شیڈولنگ کی جائے، تمام کارروائی مکمل کرے رپورٹ جلد جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
اسسٹںٹ رجسٹرار کا کہنا ہے کہ کلاسیفیکیشن کے باعث برانچز میں پبلک ڈیلنگ کا وقت محدود رہے گا، دوپہر 12 بجے کے بعد وکلا، عوام اور سائلین برانچ میں داخل نہ ہوں۔
PM Shehbaz Sharif and Bilawal Bhutto Zardari have agreed to bring the 27th amendment - Aaj News
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ہے، جس میں ستائیسویں ترمیم لانے پر اتفاق کیا گیا اور جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے مل کر چلنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے لیے لاہور میں ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن پہنچے، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی بلاول بھٹو کے ہمراہ تھے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اعظم نذیر تارڑ ،رانا ثناء اللہ اور سردار ایاز صادق بھی ماڈل ٹاؤن پہنچ گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی ملاقات میں 27ویں آئینی ترمیم لانے پر اتفاق کیا گیا۔ اور اس کیلئے مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیے جانے پر بات کی گئی۔
ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ 27ویں ترمیم میں صوبوں کے حقوق کے حوالے سے دیکھا جائے گا، مولانا فضل الرحمان، ایم کیوایم اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
ستائیسویں آئینی ترمیم پر جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ کو پیشگی آن بورڈ لیا جائے گا، نئے چیف جسٹس کی طرف سے سنیارٹی لسٹ اپ ڈیٹ کرنے اور فل کورٹ اجلاس بلانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
آج کی ملاقات میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم سے ملاقات میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو تاریخی قرار دیا ہے۔
ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے مل کر چلیں گے، غیر جمہوری طاقتوں کا راستہ روکنے کے لیے چھبیسویں آئینی ترمیم کارگر ثابت ہوگی۔
اس موقع پر شہبازشریف نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا کریڈٹ تمام اتحادی جماعتوں کو جاتا ہے، پہلے بھی عوامی خدمت سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی اب پیچھے ہٹیں گے، ملکی معاشی اعشاریہ مثبت ہونے سے مہنگائی میں واضح کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
واضح رہے کہ کچھ روز قبل حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیم بھی منظور کروا چکی ہے۔
قرار داد کے متن میں لکھا گیا کہ پاکستان کا آئین مقدس دستاویز ہے جو 1973میں متفقہ طورپر منظور کیاگیا، ریاستی ادارے جتنے مضبوط، فعال اور قابل اعتماد ہوں گے تو ریاست بھی اتنی طاقتور و باوقار ہوگی، مقننہ انتظامیہ و عدلیہ کےاختیارات کی علیحدگی ہر ادارے کی ذمہ داری ہے۔
حکومت کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ 20 اور 21 اکتوبر 2024 کو منظور کی جانے والی 26ویں آئینی ترمیم تاریخی اہمیت کی حامل ہے، اس ترمیم سے عدالتی اصلاحات کی فراہمی کی راہ ہموار ہوئی ہے، پاکستان کی سیاسی قیادت پارلیمان کو تاریخی ترمیم پاس کرنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے، یہ ترمیم پاکستان کے تابناک جمہوری مستقل، سیاسی اتحاد و سیاسی انتشار کے خاتمے کا باعث ہوگی۔
صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کے ذریعے چارٹر آف ڈیموکریسی کا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچا، ہمارے اپوزیشن کے ممبران بات کررہے تھے کہ یہ آئینی ترمیم بغیر اپوزیشن کے منظور کروائی گئی، آئینی ترمیم کےلیے قومی اسمبلی میں جو پارلیمانی کمیٹی بنی اس کی نشستوں میں ان کے ممبران شامل ہوتے رہے اور اپنی رائے بھی دی۔
بعدازاں پنجاب اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کی قرارداد منظور کر لی گئی جس پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شدید نعرے بازی کی اور 26 ویں آئینی ترمیم، پنجاب حکومت کے رویے، پولیس کے مظالم اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر کا کہنا تھا کہ مجبور ہوگئے ہیں پولیس حکومت کے خلاف ٹوکن واک آئوٹ کررہے ہیں، نادیہ کھر میری بیٹیوں کی طرح ہے اس کو پولیس وین میں اٹھاکر ڈالا گیا وہ افسوسناک ہے، فیصل آباد کے ممبرز کو پولیس اٹھا کر لے گئی، جنگ میں قیدیوں کو مارنا شروع نہیں کردیتے ہم تو پھر ایم پی ایز ہیں، ہم ممبر ہیں کہاں جائیں یا تو ہم چلے جاتے ہیں کسی اور کو سیٹوں پر بٹھا دیں۔
ملک احمد خان بھچر نے مزید کہا کہ ہم نئے اسٹامپ نہیں دے سکتے بانی پی ٹی آئی کےساتھ ہم نے کھڑا ہی ہونا ہے، گھر سے باہر نکلتے ہیں تو بتا کر آتے ہیں اگر گھر واپس نہ آئیں تو باقی کام خود ہی کرلینا، ہمارے ایم پی ایز ایم این ایز کو اٹھایا جاتا ہے، تیسرے درجے کے لوگ شودر کی طرح سلوک ہو رہا ہے کوشش کی ایوان سے بائیکاٹ نہ کروں۔
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر ووٹرز پر دباؤ سے متعلق ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سینیئر رہنما افراسیاب خٹک نے دائر کی ہے، جس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے اور انکوائری کی جائے کہ 26ویں آئینی ترمیم میں ارکان اسمبلی نے ووٹ رضاکارانہ طور پر ڈالا یا دباؤ کے تحت دیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ معاملے کے خود انکوائری کرے یا جوڈیشیل کمیشن کے ذریعے ارکان پر دباؤ کے معاملے کی انکوائری کروائے اور قرار دیا جائے کہ 26 ویں آئینی ترمیم درست طریقے سے منظور نہیں کی گئی۔
درخواست میں یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ ارکان اسمبلی کے انتخابی تنازعات الیکشن ٹربیونل میں زیرالتوا ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دے کر خارج کیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ، چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی اور آئینی بینچوں کا قیام عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست پر آئینی بینچز سماعت نہیں کرسکتے۔
واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو آئین کا حصہ بننے والی 26ویں ترمیم کو اگلے ہی روز سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا، درخواست گزار نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ مذکورہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ اور اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے۔
سپریم کورٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے شہری محمد انس نے یہ آئینی درخواست اپنے وکیل عدنان خان کی وساطت سے دائر کی تھی جس میں وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔