Aaj News

جمعہ, اکتوبر 04, 2024  
01 Rabi Al-Akhar 1446  

اسرائیلی وزیراعظم کی جمہوریت اور امن کی نئی تعریف

اسرائیلی وزیراعظم کا 27ستمبر 2012کو اقوام متحدہ میں خطاب بھی دلچسپی سے خالی نہیں تھا
شائع 28 ستمبر 2024 01:40pm

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا اقوام متحدہ سے اگلے روز خطاب سنا، تو مجھے جمہوریت اور امن کے نئے معانی کا پتا چلا، نیتن یاہو کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امن اور جمہوریت حماس کے خاتمے، حزب اللہ کو تباہ کرنے اور ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے میں ہی مضمر ہے، غزہ میں حماس کو اگلی کسی حکومت کا حصہ بننے دینے کا مطلب یہ ہے کہ جرمنی میں نازیوں کو حکومت بنانے دی جائے، انھوں نے دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک جو ابھی تک اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے، انھیں صہیونی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ پہلے بھی یہ اسرائیل ہی تھا جس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچایا اور ایرانی ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھنے میں دس برس کی تاخیر ہوئی، نیتن یاہو بار بار یہ ثابت کرتے رہے کہ اسرائیل کی ہر کارروائی کا مقصد دنیا میں امن کا قیام اور جمہوریت کا تحفظ ہے۔ اور اس کے لیے وہ ہر اقدام اٹھا رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اٹھائیں گے۔

اسرائیلی وزیراعظم کا 27ستمبر 2012کو اقوام متحدہ میں خطاب بھی دلچسپی سے خالی نہیں تھا، اس میں بھی انھوں نے امن اور جمہوریت کی بات کی، دلچسپ امر یہ ہے کہ انھوں نے القاعدہ اور ایران کو حلیف قرار دیا، ان کے خیال میں ایران کے ایٹمی قوت بننے کا مطلب القاعدہ کا ایٹمی طاقت بننا ہے، ایران کی وجہ سے مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا سمیت دنیا میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا، جمہوریت تباہ و برباد ہوجائے گی، یہ بھی کہا کہ مغربی طاقتیں اگر چاہتیں تو دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کو روکا جاسکتا تھا۔

میری آنکھوں میں اس وقت وہ ویڈیوز بھی گھوم رہی ہیں جن میں دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں پر مظالم اور قتل عام دکھائے گئے ہیں، پھر درجنوں کی تعداد میں ہالی ووڈ کی فلمیں جن میں یہودیوں کو مظلوم دکھایا گیا ہے، یقیناً لاکھوں یہودیوں کے قتل عام کی ہر ذی شعور شخص مذمت بھی کرے گا اور اسے کسی صورت جائز بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اسرائیلی فوج کا حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کو فضائی حملے میں مارنے کا دعویٰ

اور اب ایسی ہی ویڈیوز غزہ سے دیکھنے کو مل رہی ہیں، بچوں اور خواتین سمیت چالیس ہزار سے زیادہ افراد کو شہید کیا جاچکا ہے، چھیانوے ہزار سے زیادہ زخمی ہیں، دس ہزار افراد لاپتا ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ لوگ اسرائیلی حملوں میں تباہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر جان دے چکے ہیں، زخمیوں میں کئی ہزار ایسے ہیں جو کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکیں گے، لبنان پر بھی اسرائیلی حملے جاری ہیں، بیروت پر تازہ حملوں میں سیکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اسرائیل کی کوشش ہے کہ حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کو ختم کردیا جائے۔

دوسری جنگ عظیم اور غزہ جنگ کی ویڈیوز میں ایک چیز مماثل ہے، دونوں میں انسان مر رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم کو چوراسی برس ہوگئے لیکن آج تک یہودیوں کے قتل عام کی داستانیں سنائی جا رہی ہیں، مظلومیت کو بنیاد بنا کر یہودیوں کو زمین کا خطہ تک عنایت کردیا گیا، ہولو کاسٹ کے خلاف گفتگو جرم ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو یہودیوں کے قتل عام کی ذمہ دار یورپی اقوام ہیں، جرمنی اور دیگر ملک اس کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اسرائیل بھی یورپ کو ہولوکاسٹ کا ذمہ دار سمجھتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر اسرائیل مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کیوں پیدا کر رہا ہے۔

امریکی بحری بیڑے بھی بظاہر جنگ کا پھیلاؤ روکنے کے لیے خطے میں پہنچا دیے گئے ہیں، خطے میں موجود امریکی افواج ہائی الرٹ ہیں اور کسی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کو تیار ہیں۔ اسرائیل کو مسلسل امریکی ہتھیار بھی مل رہے ہیں۔ یورپ کے کئی ملک بھی اسرائیلی ایجنڈے کے درپردہ حمایتی ہیں، وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ کہیں اسرائیل کی مخالفت سے ان پر پھر یہود مخالف ہونے کا الزام نہ لگ جائے۔ مشرق وسطیٰ میں بے امنی یورپ کے لیے بھی کسی حد تک فائدہ مند ہے۔

بیروت پر اسرائیلی حملے کے بعد امریکا کا ’حیران کن‘ ردعمل

اگر جمہوریت کی بات کریں تو غزہ میں عوام نے حماس کو اپنا نمائندہ بنایا اور حکومت ان کے حوالے کی، اسی طرح لبنان کی حکومت اپنے عوام کی نمائندگی کرتی ہے، ایران کے حالیہ الیکشن میں عوام نے اپنا فیصلہ سنایا، جمہوریت تو یہی ہے کہ عوام جسے چاہیں منتخب کریں اور عنان اقتدار اس کے حوالے کردیں۔ ان تین خطوں کے عوام نے بھی ایسا ہی کیا لیکن ان کی جمہوریت اس جمہوری نظام سے مختلف ہے جو اسرائیل اور امریکا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف امریکا بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ جنگ بندی کی جائے لیکن جس طرح اس نے افغانستان میں سوویت یونین کو روکنے کے لیے کردار ادا کیا، افغانستان میں دیگر حکومتوں کی مدد کے لیے اپنی افواج اتاریں، نام نہاد ایٹمی ہتھیاروں کا دعویٰ کرکے عراق کو تاراج کیا، لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی، لیکن یہاں امریکا خاموش ہے، جنگ بندی کی بات کرتا ہے تاہم اسرائیل کو روک نہیں رہا، بلکہ اس کے تحفظ کے لیے موجود ہے، کیونکہ یہ اسرائیل ہی ہے جو خطے میں امریکی اہداف پورے کر رہاہے، امریکا کا ہدف وہ قوتیں اور ملک ہیں جو کسی نہ کسی طور امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں، ان قوتوں کو اسرائیل کے ذریعے تباہ کرایا جا رہا ہے، ایک اور ہدف ایران کو جنگ میں شامل ہونے پر مجبور کرنا ہے تاکہ ایران پر حملے کا جواز مل سکے۔

اسرائیل کا حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر پر 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بموں سے حملہ، اہم کمانڈروں سمیت 8 شہید

اسرائیل نے رواں سال جولائی میں تہران میں بطور مہمان مقیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا، اسرائیل نے ہی 2023میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر رضا موسوی کو شام کے دارالحکومت دمشق میں قتل کیا، جنوری دو ہزار بیس میں قدس فورس کے کمان دار جنرل قاسم سلیمانی کو عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکا نے قتل کیا، یہ اور اس طرح کے متعدد کارروائیاں ایران کو مشتعل کرنے کی غرض سے کی جارہی ہیں، ایران کی طرف سے سخت بیانات بھی سامنے آرہے ہیں اور اس نے اسرائیل پر ڈھیلا ڈھالا میزائل حملہ بھی کیا تاہم مجموعی طور پر تہران بہت صبر کا مظاہرہ کر رہے ہے۔ ہزاروں سال سے جنگوں کے ذریعے مفادات کا حصول عام ہے، اور ہر بار سب کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ اس کی جنگ کا مقصد دنیا میں امن کا پیغام پھیلانا ہے، اور اب یہی پیغام اسرائیل اور امریکا دے رہے ہیں کہ حماس، حزب اللہ اور ایران کی سرکوبی جمہوریت اور امن کے لیے ضروری ہے، اور جمہوریت اور امن بھی وہ جو ہمیں پسند ہے۔

lebanon

ٰIsrael