قومی اسمبلی کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024 سینیٹ میں بھی پیش
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سوشل میڈیا قوانین سخت کرنے سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء سینٹ میں پیش کر دیا گیا، میڈیا کی مانیٹرنگ اور اسے کنٹرول کرنے کیلئے ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی، جھوٹی خبر پھیلانے پر 3 سال قید 20لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
سینٹ اجلاس میں پاکستان الیکٹرانک کرائم ترمیمی بل 2025ء پیش کر دیا گیا، بل کے مطابق ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی، جسے غیر قانونی آن لائن مواد ہٹانے اور ممنوعہ مواد شیئر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی نئی تعریف بھی بل میں شامل کی گئی ہے، اس میں استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر کا اضافہ کیا گیا۔
پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں موجودہ غیر قانونی آن لائن مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد کو شامل کیا گیا، غیر قانونی مواد میں امن عامہ، غیر شائستگی، غیر اخلاقی و غیر قانونی مواد، گستا خانہ مواد، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت ، توہین عدالت یا کسی جرم کے لیے اکسانا شامل ہیں۔
اسی طرح غیر قانونی مواد میں عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی بھی شامل ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حذف مواد نشر کرنے پر بھی کارروائی ہوگی۔
بل کے مطابق ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائے گی جو چیئرپرسن سمیت دیگر 9 ممبران پر مشتمل ہوگی، اتھارٹی کو آن لائن مواد ہٹانے اور ممنوعہ مواد شیئر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔
ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی جس کا چیئرمین ہائیکورٹ کا سابق جج ہو گا، ترمیمی بل کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔
بل کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ختم کرکے وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لائے گی جوسائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔
پی ٹی آئی کی رکن زرتاج گل نے دعویٰ کیا کہ اس بل کا مقصد سوشل میڈیا پر لگام ڈالنا ہے کیونکہ اب وہی پلیٹ فارم بچے تھے جن پر لوگ حکومت کے کرتوت سامنے لاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت نے فائر وال لگائی، اس سے کام نہیں بنا تو اب یہ بِل لے کر آئے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا آپ کو کسی کا اکاؤنٹ یا اس سے کی جانے والی بات اچھی نہیں لگتی تو اس کو اٹھا لیں۔
صحافی تنظیموں نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے ایوان کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور بل کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے بغیر مشاورت بل تیارکیا جو اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے، اپوزیشن جماعتوں نے بھی بل کی شدید مخالفت کی ہے۔
قبل ازیں ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024 ایوان بالا (سینیٹ) میں بھی پیش کر دیا گیا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ کمیٹی کوبھیجوا دیا، اپوزیشن نے ڈائس بجا کر احتجاج کیا تو صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آوٹ کیا۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی زیرصدارت اجلاس ہوا، پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی جس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے وقفہ سوالات معطل کردیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر نشتوں پر کھڑے ہوگئے اور احتجاج شروع کردیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 پیش کیا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کو بجھوا دیا۔
بل پیش کیے جانے کے دوران بھی اپوزیشن کا احتجاج جاری رہا جبکہ پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آوٹ کیا۔
بعد ازاں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل بھی پیش کیا گیا جو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔
ڈپٹی چئیرمین نے کہا کہ قائمہ کمیٹی 3 روز میں رپورٹ ایوان میں پیش کرے ، اجلاس 27 جنوری شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
قومی اسمبلی میں حکومت فرنٹ فٹ پرکھلیتی رہی، 38 بل منظورہوئے، 24 قراردادیں پاس کی گئیں۔ ایوان زیریں میں اپوزیشن احتجاج، احتجاج اور احتجاج پرگامزن رہی۔
10ماہ میں 38 بل منظور، 24 قراردادیں پاس کی گئیں
ایوان زیریں کے پہلے 10 ماہ میں حکومت فرنٹ فٹ پرکھیلتی رہی، اس دوران 38 بل منظور ہوئے، 24 قرار دادیں پاس کی گئیں، جبکہ اپوزیشن احتجاج کرتی رہ گئی۔
قومی اسمبلی کے پہلے دس ماہ میں قانون سازی پرنظرڈالی جائے تو حکومتی بنچ ٹی ٹونٹی میچ کی طرح جارحانہ انداز میں نظرآیا، حکومت نے 26 بل اور12 آرڈیننس پیش کیے جن میں سے 29 کی منظور کرلیے گئے جبکہ 5 نجی بل بھی باقاعدہ ایکٹ بنے۔
قومی اسمبلی کے11سیشن میں 204 قراردادوں میں سے صرف 24 منظور ہوسکیں جبکہ 148 قراردادیں زائد المعیاد ہوکر ختم ہوگئیں۔
قومی اسمبلی کا دسواں سیشن بل منظوری میں سرفہرست رہا جس میں 13 بل منظور کیے گئے جبکہ 51 میں سے 7 قرار دادیں منظور ہوئیں۔
26 آئینی ترمیم، انتخابی ترمیم یا پھر عدالت عظمی اور ججوں کی تعداد سے متعلق قانون سازی، حکومت نمبر گیم کے ساتھ فرنٹ فٹ پرکھیلتی رہی، دوسری جانب اپوزیشن نے بھی ایوان زیریں کا میدان خالی نہ چھوڑا اور کم وبش ہر اجلاس میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
Comments are closed on this story.