چین سے کشیدگی کم کرنے کیلئے امریکہ کا ٹیرف میں نرمی پر غور شروع
امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں کمی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں، جب کہ امریکی حکومت نے چینی درآمدات پر عائد بھاری محصولات میں کمی پر غور شروع کر دیا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام دونوں معاشی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے، تاہم کسی بھی فیصلے کو یک طرفہ طور پر لاگو نہیں کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق چینی درآمدات پر موجودہ 145 فیصد ٹیرف کو کم کرکے 50 سے 65 فیصد کے درمیان لایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب چین بھی ان درآمدات پر جو امریکا سے کی جاتی ہیں، 125 فیصد محصولات میں کمی کرنے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ یہ شرح اب بھی اتنی زیادہ ہوگی کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارت کا بڑا حصہ روکا جاسکے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے تصدیق کی ہے کہ دونوں ممالک موجودہ ٹیرف کی پالیسی کو غیر پائیدار سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹیرف دونوں معیشتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، تاہم ہم اس وقت یہ نہیں کہہ سکتے کہ چین اور امریکا کے درمیان باضابطہ مذاکرات کب شروع ہوں گے۔‘
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی منڈیوں میں بے یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے اور سرمایہ کار دونوں ممالک کے تجارتی مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک میں ٹیرف میں عملی کمی کی پیش رفت ہوئی تو اس کے عالمی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
چین کے رویے پر ٹیرف میں کمی کا انحصار ہوگا، صدر ٹرمپ کا دوٹوک اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ چین پر عائد ٹیرف میں ممکنہ کمی کا دارومدار مکمل طور پر بیجنگ کے رویے پر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ دو سے تین ہفتوں میں چین کے لیے مخصوص ٹیرف کی نئی شرحیں طے کی جائیں گی، تاہم یہ فیصلہ چین کے اقدامات اور رویے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے شکوہ کیا کہ کئی دہائیوں سے امریکا کے ساتھ ناصرف چین بلکہ دیگر ممالک بھی ناروا سلوک کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کینیڈا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکا سالانہ دو سو بلین ڈالر اس ملک کو معاشی سپورٹ کی مد میں دے رہا ہے، اور یہ سلسلہ ناقابل قبول ہے۔ ’’کینیڈا کے ساتھ تجارتی خسارہ اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا،‘‘ انہوں نے سخت لہجے میں کہا۔
عالمی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے روس اور یوکرین کو مشورہ دیا کہ وہ باہمی ڈیل کرلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ان کی جلد ملاقات متوقع ہے، اور امریکی قیادت کو یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنا ہوگا۔
اس گفتگو سے قبل صدر ٹرمپ نے تعلیم کے شعبے میں بھی بڑی پیش رفت کا اعلان کیا۔ انہوں نے سات ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، جن میں سیاہ فام کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک خصوصی آرڈر بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یونیورسٹیوں کے نئے ایکریڈیشن نظام کو تبدیل کرنے اور غیر ذمہ دار طلبا کے لیے قرضوں کی سہولت ختم کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے۔
صدر ٹرمپ کے ان بیانات کو اقتصادی اور تعلیمی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیوں کی طرف اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
ٹیرف معاہدے پر زبردستی یا دھمکی نہیں چلے گی، چین کا امریکا کو دوٹوک پیغام
چین نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ ٹیرف معاہدے کے حوالے سے کوئی بھی زبردستی یا دھمکی آمیز رویہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ بیجنگ واشنگٹن کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاہم اس عمل میں کسی قسم کی زور زبردستی برداشت نہیں کی جائے گی۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ چین ہمیشہ مذاکرات اور باہمی احترام کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے، اور موجودہ عالمی تجارتی صورتحال کے تناظر میں دونوں بڑی معیشتوں کے درمیان تعمیری مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے سخت لہجے میں واضح کیا کہ اگر امریکا کسی دباؤ یا دھمکی کی پالیسی پر کاربند رہا تو چین اس کا مناسب اور مضبوط جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا، ’ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن دباؤ، دھمکی یا زبردستی کے طریقے کسی صورت قبول نہیں۔‘
Comments are closed on this story.