نان اسٹیٹ ایکٹرز دونوں ملکوں کیلئے مسئلہ، دہشت گردی کاحل مذاکرات ہیں، بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آج نیوز کے پروگرام سپاٹ لائٹ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو شملہ معاہدہ معطل نہیں کرنا چاہئے، لیکن اگر بھارت ہٹ دھرمی دکھاتا ہے تو تمام دو طرفہ معاہدوں پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔ بھارت دہشتگردی ختم کرنا چاہتا ہے تو واحد حل بات چیت ہے، نان اسٹیٹ ایکٹرز ملکوں کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں، ہمیں نان سٹیٹ ایکٹرز کا کوئی مشترکہ بندوبست کرنا چاہئے، اگر بھارت پہلگام کی نیوٹرل انکوائری پرراضی نہیں ہوتا تو بے نقاب ہوجائے گا۔
سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزہ جہانگیر سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی حالیہ جارحانہ پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا تو پاکستان کو شملہ معاہدے سمیت تمام دو طرفہ معاہدوں پر نظرثانی کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کی پاکستان نے واضح طور پر مذمت کی ہے، کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی سے متاثر ملک ہے۔ ہم صرف اپنے ملک سے نہیں بلکہ پورے خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت ہر دہشت گردی کے واقعے کا فوری الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے، جو ماضی میں بھی دیکھا جا چکا ہے۔
آج نیوز کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے (واٹر ٹریٹی) پر یکطرفہ اقدام کو غیر قانونی اور خطرناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پہلی بار یہ اعلان کیا کہ وہ معاہدے کو نہیں مانتا، حالانکہ ماضی میں جنگوں کے باوجود ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر کے تنازعے کو پانی سے جوڑنا بھارت کی کمزور قانونی پوزیشن کو چھپانے کی کوشش ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی نے زور دیا کہ دہشت گردی کے مسئلے کا واحد حل بات چیت ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز دونوں ملکوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، ان کا مشترکہ بندوبست ضروری ہے۔ پاکستان ہمیشہ مذاکرات کا حامی رہا ہے، جبکہ بھارت بات چیت سے راہ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔
وزیراعظم سے حالیہ ملاقات پر بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کو واضح پیغام دیا ہے کہ بھارت کے حالیہ اقدامات پر ہم اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر جنگی ماحول نہ بنایا جائے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ بھارت اندرونی مسائل کا بوجھ مسلمانوں اور پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ کشمیر اور واٹر ٹریٹی پر بھارت کی قانونی پوزیشن انتہائی کمزور ہے اور اگر پہلگام حملے پر بھارت نیوٹرل انکوائری سے انکار کرتا ہے تو دنیا کے سامنے بے نقاب ہو جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے حوالے سے سوال پر انھوں نے جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ کا یہ بیان کہ پاکستان اور بھارت کو بات چیت کرنی چاہیے، دراصل پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی تائید ہے، جو ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ ہماری نئی حکومت کا بھی یہی مؤقف ہے کہ ہم اپنے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کریں، لیکن بھارت نے کبھی بھی پاکستان سے براہِ راست بات چیت کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جتنے بھی واقعات پیش آئے ہیں، ان میں کوئی پیش رفت اس لیے نہیں ہو سکی کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کبھی مؤثر بات چیت نہیں ہوئی۔ چاہے وہ دہشت گردی کا معاملہ ہو یا کشمیر کا، بھارت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا بیان اسی تناظر میں پاکستان کے مؤقف کی تائید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر صدر ٹرمپ کی سیاسی مہم کا مقصد امریکا کو مزید تنازعات میں ملوث ہونے سے بچانا تھا۔ خان صاحب کی حکومت میں جب پاک بھارت تنازعہ شدت اختیار کر گیا تھا، اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک کردار ادا کیا تھا، لیکن اب حالات ایسے نہیں ہیں کہ امریکا خود کو اس تنازعے میں شامل کرے تاہم، ٹرمپ کا یہ کہنا کہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ممکن ہے، پاکستان کے موقف سے ہم آہنگ ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے مودی کے حوالے سے کہا کہ مودی بین الاقوامی سطح پر ایکسپوز ہو چکا ہے اور ان کی حکومت ایک انتہا پسند ریاست کی نمائندگی کرتی ہے۔ مودی کی حکومت نہ صرف اپنے داخلی مسائل میں مبتلا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے مؤقف میں شدت پائی جاتی ہے۔ اگر وہ واقعی دہشت گردی کے خاتمے اور خطے میں امن کے خواہاں ہیں، تو یہ بات چیت کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت کے بیانات اپنی جگہ، لیکن ان کے عملی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنی داخلی اور خارجی مشکلات کا الزام پاکستان اور مسلمانوں پر ڈال کر اپنی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کی پالیسی دہشت گردی کے خاتمے کی نہیں، بلکہ پاکستان میں موجود مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ہے۔ کشمیر میں بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے الزام میں لوگوں کے گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، جو کہ کلیکٹو پنشمنٹ کی ایک مثال ہے۔ انشاءاللہ، کشمیر کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خود کرے گی۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، پاکستان اس کا مقابلہ کرتا آ رہا ہے، اور پورے خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک واضح اور مؤثر پالیسی کی ضرورت ہے۔
سابق وزیر خارجہ نے آج نیوز کے پروگرام میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اس وقت ایک ایسے عالمی ماحول میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا ہوگا جہاں بین الاقوامی قوانین اور طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے حقوق کا دفاع کیا جا سکے، خاص طور پر بھارت کی جانب سے پانی کے وسائل کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں کے حوالے سے۔ ان فیصلوں کو غیر قانونی اور پاکستان کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہوئے، ہمیں عالمی سطح پر اس پر آواز بلند کرنی ہوگی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بھارت کی الزام تراشی پر وزیراعظم کا فیصلہ بہت مناسب تھا۔ بھارت ہمیشہ پاکستان پر دہشت گردی کے حملوں کا الزام لگاتا ہے، لیکن جب ہم پوچھتے ہیں کہ ان حملوں کا تعلق کس شہر یا علاقے سے تھا، تو بھارت بین الاقوامی سطح پر نیوٹرل انکوائری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کا ایک ”یونیق کانٹیکس“ ہے، جہاں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی موجودگی عالمی سطح پر ایک مسئلہ بن چکی ہے اور ماضی میں پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں کیے گئے فیصلوں کا نقصان بھی بھگتا ہے۔ میرے بہ طور وزیر خارجہ دور میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے نکل کر دنیا کو یہ تسلیم کرایا کہ پاکستان دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردی کو اسپورٹ کیا، اس قسم کی دہشتگردی کے واقعات جو پاکستان میں ہوتے ہیں اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ واضح نظر آتا ہے، کبھی کلبھوشن کی صورت میں اور کبھی ان کے تنظیموں سے فنانشل کنکشنز ہوتے ہیں، جب جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تھا اس کی مذمت بھارت نے نہیں کی۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اگر بھارت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے، تاکہ دونوں ممالک اپنے مسائل کا حل مل کر تلاش کریں تاکہ خطے میں امن قائم ہو۔
سندھ میں خواتین قیدیوں کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی کو گرفتار کیا جائے، چاہے وہ بلوچستان حکومت ہو یا سندھ حکومت، اور نہ ہی ہم چاہیں گے کہ کسی پر ظلم ہو۔ تاہم بعض اوقات حالات کے پیش نظر ہمیں سخت اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ پرامن احتجاج کرے، لیکن جب احتجاج کرنے والے غیر معقول فیصلے کرتے ہیں تو حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنا پڑتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان سمیت تمام مسائل کا سیاسی حل نکالا جائے، اور اگر کوئی علیحدگی پسند نعرے لگاتا ہے یا خواتین کو خودکش حملے کرنے پر اکساتا ہے، تو ایسی کارروائیوں کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے مسئلے پر ہمیں سب کو مل کر ایک مضبوط جواب دینا ہوگا۔
Comments are closed on this story.