Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
آئینی ترمیم کے حوالے گورنر پنجاب سلیم حیدر نے واضح کیا کہ جو ترمیم کسی فرد واحد کے لئے ہوں، پی پی اس میں شامل نہیں، چاہے وہ ترمیم توسیع کے متعلق ہو یا سنیارٹی ،پیپلز پارٹی اس میں کسی صورت شامل نہیں ہوگی۔
گورنر پنجاب سلیم حیدر نے آج نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت ہیں کہ میرٹ سے ہٹ کر ترمیم میں شامل ہوں،:پیپلز پارٹی نے کونسا کوئی انعام لینا ہے ہم نے تاریخ میں کبھی ڈیل نہیں کی۔
پاکستان بار کونسل کا مجوزہ آئینی ترامیم کو خفیہ رکھنے پر تشویش کا اظہار
گورنر پنجاب نے کہا کہ گزشتہ دو دن سے بلاول بھٹو کہہ رہے ہیں کہ اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہونگے ہماری پارٹی پالیسی ہے کہ اتحادی گورنمنٹ کو چلانا ہے اتحادی حکومت کو ن لیگ نہیں ملک کے لئے چلانا ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب الیکشن کا رزلٹ آیا ،ہم بڑی مشکل میں تھے، کہ دوبارہ ن لیگ کیساتھ کیسے بیٹھے کیونکہ ہمارا 18 ماہ کاتجربہ بڑا ناکام ہیں، ملکی صورتحال تین مینڈیٹ میں تقسیم تھی اگر دو جماعتیں آپس نہ ملتی تو حکومت نہ بنتی گورنمنٹ نہ بنتی تو دوبارہ الیکشن ہونے تھے،دھاندلی کا شور ہونا تھا۔
سلیم حیدر کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے مجبوری میں کڑوا گھونٹ بھرا، پی پی نے ہمیشہ ملکی مفاد میں قربانی دی میرے ہاتھ سے کوئی وائس چانسلر میرٹ سے ہٹ کر تعینات نہیں ہوگا، اگر آصف زرداری صدر نہ ہوتے ملک کو مزید مشکلات کا سامنا ہوتا۔
گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ آصف علی زرادی وہ واحد انسان ہیں جو سب کو جوڑ سکتے ہیں، پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت ملنی چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے قبل نہیں روکا جاسکتا۔
بیرسٹر علی ظفر سے آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں سوال ہوا کہ کیا مجوزہ آئینی ترامیم کو پارلیمنٹ میں قانون سازی سے قبل عدالتوں میں لے جا کر روکا جاسکتا ہے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میری نظر میں آپ پارلیمنٹ میں قانون سازی کو قبل ازوقت نہیں روک سکتے، کیونکہ اگر یہ کریں گے تو ہمارا پورا پارلیمانی نظام ختم ہوجائے گا‘۔
آئینی ترامیم کیخلاف وکلا تحریک کے آغاز کا اعلان، ’سیلاب باہر نکلے گا تو کوئی طاقت نہیں روک سکے گی‘
اس کے باوجود سینئیر وکلا کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف عدالتوں میں درخواستوں پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’آپ کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ ٹرائی نہ کریں‘۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک قانون کے بارے میں اسٹے آرڈر جاری کیا تھا کہ پارلیمنٹ یہ قانون ابھی نہ پاس کرے، وہ قانون بل کی شکل میں ہی تھا پاس نہیں ہوا تھا، اس لئے ہمارے پاس سپریم کورٹ کے حکم کی شکل میں مثال تو موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت پہلے سے ہی اگر روک دے کسی قانون کو تو پھر وہ ذرا مشکل ہوجائے گا کہ نظام چل سکے جمہوریت کا‘۔
بیرسٹر علی ظفر نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط پر کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ک وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے، اسپیکر اگر کہتا ہے کہ آپ فیصلہ اس قانون کے مطابق کریں تو الیکشن کمشنر اس کے پابند نہیں ہیں، الیکشن کمشنر آئین پاکستان کے آرٹیکل 175 کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کا پابند ہے، ’اگر سپریم کورٹ آف پاکستان کوئی آرڈر دے گا تو چاہے وہ اچھا لگے یا برا لگے، غلط ہو صحیح ہو، ہر انسٹی ٹیوشن (ادارے) اس پر پابند ہے کہ اس پر عملدرآماد کرے اور اس کے کام کرے‘۔
وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ لاہورمیں جلسے کا مقصد حقیقی آزادی ہے، اب اس کرپٹ ٹولے سے آزادی لینے کا وقت آگیا ہے ، خیبرپختونخوا سے قافلے لے کر خود نکلوں گا اور مینار پاکستان پر جلسہ کروں گا۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پورا پاکستان نکلےگا، جعلی حکومت کو گھبرانا نہیں ہے، ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دے کر پاکستان کو حاصل کیا ہے۔ اب اس کرپٹ ٹولے سے آزادی لینے کا وقت آگیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پورا پاکستان نکلےگا، جعلی حکومت کو گھبرانا نہیں، میں خود خیبرپختونخوا سے قافلے کی قیادت کروں گا۔ 21 ستمبر کو آگے کا لائحہ عمل دیں گے۔
وزیراعلی کے پی نے کہا کہ ہم نےاپنی آئندہ نسل کیلئے آزادی لینی ہے، ہم پاکستان کو مافیاز سے آزاد کروائیں گے، کیونکہ ہم آزاد ہیں اور آزاد رہیں گے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمرایوب نے کہا ہے کہ آئینی ترمیمی مسودے کے بارے میں وفاقی وزیرقانون کو بھی کچھ نہیں تھا، اگر یہ مسودہ منظور ہوجاتا تو ملک میں مارشل لا لگ جاتا۔
قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمرایوب نے کہا کہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی میں حکومتی نمائندوں اور ان کے اتحادیوں کا کردار منفی رہا، یہ تمام لوگ کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے چاہتے تھے کہ اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ کر کسی اور کے حوالے کر دیں۔
ججز نے سیاست کرنی ہے تو اپنی سیاسی جماعت بنائیں، بلاول
عمر ایوب نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ انہیں ترمیمی مسودہ قبول نہیں ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو بھی مسودے کے بارے میں کچھ پتا نہیں، تمام تر صورتحال میں مولانافضل الرحمان نے مثبت کردار ادا کیا جو قابل تحسین ہے۔
عمر ایوب نے کہا کہ اگر یہ بل پاس ہوجاتا تو ملک میں مارشل لا لگ جاتا، آئینی معاملات سپریم کورٹ میں آئینی بینچ بنا کر کیوں حل نہیں کیے جاتے، آئینی عدالت کا جج صدر زرداری لگاتے جو اپنی مرضی کے قوانین بناتے، ہمیں کسی بھی قسم کی سپر عدالت قبول نہیں ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ آرٹیکل 8 ، 199 اور 200 کے ساتھ 57 آئینی ترامیم کر رہے تھے جس کا ڈرافٹ کسی کے پاس نہیں تھا نہ ہمیں دیا گیا، خصوصی کمیٹی میں حکومتی اراکین کے پاس ہمارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا، آئندہ بھی ایسی کوئی ترمیم آئی تو ہم بھرپور مذمت کریں گے۔
پی ٹی آئی کے لاہور جلسے سے متعلق عمر ایوب نے کہا کہ لاہور کا جلسہ ہر صورت ہوگا، عمران خان نے کا پیغام ہے کہ لاہور جلسے کے لیے ورکرز تیاری کریں یہ جلسہ ہو کر رہے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو جلسے کی اجازت نہ دینے اور جلسہ رکوانے کے معاملے پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے فل بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے جلسے کی اجازت اور جلسہ روکنے سے متعلق تمام درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ یہ معاملہ ایک بار ہی سیٹل ہونا چاہیئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جسٹس فاروق حیدر کو ہی فل بنچ کا سربراہ مقرر کیا ہے، جبکہ جسٹس طارق ندیم اور جسٹس علی ضیا باجوہ بھی فل بنچ کا حصہ ہوں گے۔
تین رکنی فل بینچ کل درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
قبال ازیں، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے عالیہ حمزہ سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فائلز 10 منٹ میں چیف جسٹس کے پاس بھجوائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے اس کی آئینی تشریح ہونا ضروری ہے، یہ معاملہ ایک بار ہی سیٹل ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی نے 21 ستمبر کے جلسے کیلئے اجازت مانگ لی
اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کا جلسہ رکوانے کے لیے درخواست مرزا واحد رفیق نے دائر کی اور مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی اپنے مؤقف سے ہٹ کر لاہور میں جلسہ کرنے جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 8 ستمبر کے جلسے میں حکومت اور عدلیہ کے خلاف زبان استعمال کی گئی، پی ٹی آئی اتھارٹیز کی منظوری کے بغیر جلسہ کرنا چاہ رہی ہے، پی ٹی آئی لیڈر شپ جلسہ میں عدلیہ مخالف تقاریر کرسکتی ہے۔
انہوں نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ یہ عدالت، عدلیہ مخالف تقاریر روکنے کا حکم دے، عدالت بغیر اجازت جلسہ کرنے پر پی ٹی آئی کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے لاہور میں 21 ستمبر کو جلسے کی اجازت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں ڈپٹی کمشنر لاہور، پنجاب حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں عالیہ حمزہ اور امتیاز محمود شیخ نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہیں دی جارہی جو غیر آئینی ہے، جلسے کی اجازت نہ ملنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں آتا ہے۔
انہوں موقف اپنایا کہ ہائیکورٹ نے 9 اگست کو ڈی سی لاہور کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کا حکم دیا تھا، ڈپٹی کمشنر نے عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا۔
پی ٹی آئی کا 21 ستمبر کو لاہور میں جلسہ، 27 رکنی کمیٹی کا اعلان
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت 21 ستمبر کو جلسہ کرنے کا حکم دے۔
واضح رہے پی ٹی آئی نے 21ستمبر کو لاہور میں جلسہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم انتظامیہ کی جانب سے جلسے کی اجازت نہیں دی گئی، جس پر پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے لیکن حکومت نے بھی جلسہ رکوانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کررکھی ہے۔
ایک طرف پنجاب اور قومی اسمبلی کے اسپیکرز الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب مخصوص نشستیں کسے ملیں گی، کیسے ملیں گی، الیکشن کمیشن اس حوالے سے تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے تیسرا مشاورتی اجلاس ہوا اور بے نتیجہ ختم ہوگیا۔
اس تیسرے مشاورتی اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور کیا گیا اور لیگل ٹیم کی جانب سے الیکشن ایکٹ پر بریفنگ دی گئی۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر قانونی ماہرین سے مشورے کا فیصلہ کیا تھا۔
قانونی ٹیم نے بریفنگ میں بتایا کہ انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کئے بغیر کسی جماعت کو سیٹیں کیسے دی جاسکتی ہیں، انٹرا پارٹی الیکشنز تسلیم نہ ہونے تک پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ ہی نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے حکام اب جمعہ کو بھی اس معاملے پر سر جوڑیں گے۔
دوسری جانب نون لیگی ارکان نے بھی الیکشن کمیشن کو درخواست دے دی ہے، جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سیاسی جماعت نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہیں دی، وہ مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں۔
نون لیگی اراکین نے کہا کہ جن امیداروں نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا انہیں ڈکلیئر کیا جائے۔
ووٹوں کے سامنے فارم 45 کی کوئی اہمیت نہیں، چیف جسٹس پاکستان
خط میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کردی ہے، ترامیم کا اطلاق ماضی سے مؤثر قرار دیا گیا ہے، ایک مرتبہ جمع کرایا گیا وابستگی کا سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ججز نے سیاست کرنی ہے تو اپنی سیاسی جماعت بنائیں، عدالت سے سیاست کی امید رکھیں گے تو عوام کا نقصان ہوگا۔
بلاول بھٹو نے ملک بھر کے وکلا نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں وکلا کا اہم کردار ہے، وکلا کی محنت سے ہی ہم آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وکلا کی محنت سے ہم نے آمریت کوشکست دی، وکلا نے ہر آمریت میں صف اول کا کردار ادا کیا۔
بلاول کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے، بی بی شہید جانتی تھیں کہ عدالت سیاست نہیں کرسکتی، عدالتی اصلاحات پیپلز پارٹی کا دیرینہ مؤقف اور مطالبہ ہے، عدالتی نظام درست کرنے کیلئے آئینی عدالت ضروری ہے، آئینی عدالت کا مینڈیٹ آئینی معاملات کی تشریح ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ججز کی تقرری میں شفافیت بی بی شہید کا مطالبہ تھا، 18ویں ترمیم کے ذریعے ججز کی تعیناتی کا نظام وضع کیا گیا تھا۔
بلاول نے کہا کہ ججز نے سیاست کرنی ہے تو اپنی سیاسی جماعت بنائیں، عدالت سے سیاست کی امید رکھیں گے تو عوام کا نقصان ہوگا، رشتہ داریوں کی وجہ سے جوڈیشل سسٹم کو نقصان پہنچا ہے، روایت رہی ہے کہ آپ کا رشتہ دار ہے تو جج لگا دیں، پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ عوام فیصلہ کرے گی جج کون ہوگا، ہم نے عوام کو جلدی انصاف دلوانا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت اور اتحادیوں سےمشورہ کرکے ایسی عدالت بنائیں گے جہاں الگ کیسز لگائے جائیں، ایسی عدالتیں نہ ہوں جو ڈیم بنائیں یا ٹماٹر کی قیمتیں طےکریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری اتحادی حکومت ہے اور اتحادی حکومت میں لے دے ہوتا ہے۔
بلاول کا مزید کہنا تھا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ 50 سال بعد آیا، مجھے انصاف میں اتنا وقت لگا تو عام آدمی کو کتنا لگتا ہوگا، عوام نے ہمیں منتخب کیا اور اختیار دیا ہے، ہم ہاتھ باندھ کر کھڑے نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں، ہم نے نواز شریف کو سمجھایا تھا کہ 58 ٹو بی کا غلط استعمال ہوگا، نواز شریف خود بھی اس کا شکار ہوگئے، افتخار چوہدری نے جو بنیاد ڈالی اس کو کبھی ثاقب اور کبھی گلزار نے آگے بڑھایا۔
سابق صدر مملکت عارف علوی اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے مجوزہ آئینی ترمیم کی سخت مخالفت کی ہے۔
جمعرات کو سابق صدر عارف علوی نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کی جس میں مجوزہ آئینی ترمیم اور سیاسی امور پر مشاورت کی گئی۔
سابق صدر جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور پہنچے جہاں ان کی امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سمیت جماعت کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات ہوئی۔
گزشتہ روز، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ ان کے رابطے رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے خلاف ہونے والی بعض کارروائیوں کی مذمت بھی کرتی رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے ہمراہ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیمی بل نہیں آئین کی تدفین کرنے والا بل ہے، یہ بےحد خطرناک بل ہے، یہ لوگ 63اے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا مشکور ہوں جنہوں نےآئینی ترمیم میں رکاوٹ ڈالی اور کہا کہ پہلے مسودہ دکھاؤ۔
ان کا کہنا تھا کہ جعلی حکومت کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں، یہ ترمیم کرکے آئین کو مسخ کرکے دفن کرنا چاہتے ہیں، جو جیت کر نہیں آئے وہ آئین میں تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان میں کئی چیزیں خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہیں۔
اس موقع پر حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جماعت اسلامی آئینی ترامیم کوکسی صورت قبول نہیں کرے گی، یہ مدد دینے اور لینے کا مسئلہ نہیں ہے، یہ پاکستان کے آئین کا مسئلہ ہے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت پوری ہورہی ہے۔
انہوں نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا حکومت میں آدھے سے زیادہ لوگ فارم 47 والے ہیں، فارم 45 پرفیصلہ ہو تو بڑی تعداد میں لوگ فارغ ہوجائیں گے، تمام جماعتیں آئین پر چلیں گی تو سب کی بچت ہے، اگرآئین پر نہیں چلیں گے تو پھر بعد میں یہی لوگ بھگتیں گے۔
امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ لاہور اور اسلام آباد میں جلسہ سب سیاسی جماعتوں کا حق ہے، ہر پارٹی کو جلسے جلوس کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
قبل ازیں سابق صدر عارف علوی جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور پہنچے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا، عارف علوی نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سمیت جماعت کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور مجوزہ آئینی ترمیم بارے مشاورت ہوئی، اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، ترجمان جماعت اسلامی قیصر شریف و دیگر رہنما موجود تھے۔
وزیرداخلہ سندھ ضیا لنجار کی دھمکی کے بعد سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی سندھ اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پہنچ گئے۔
مونس علوی نے اجلاس میں جارحانہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ ہم سرینڈر کرتے ہیں ہمارا لائسنس منسوخ کردیں اور حکومت خود بجلی سپلائی کرے۔
مونس علوی نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ ہم کرتے ہیں لیکن ریٹ ہم طے نہیں کرتے جس پر کمیٹی ممبران مونس علی کے سامنے خاموش نظر آئے۔
سندھ اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں موجود شبیر قریشی نے کہا کہ آپ لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں، جواز بجلی چوری کا پیش کرتے ہیں، آپ کے پاس ادارے موجود ہیں بجلی چوری کو روکیں۔
شبیر قریشی نے مزید کہا کہ آپ کسی کو جوابدہ ہی نہیں ہوتے، آپ بجلی چوری کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیتے ہیں۔
رکن اسمبلی محمد فاروق نے کہا کہ آپ سے گزشتہ میٹنگ اچھے ماحول میں ہوئی تھی، گزشتہ میٹنگ میں جو باتیں طے ہوئی ان پر بھی عمل نہیں کیا گیا لیکن آپ نے سمجھ رکھا ہے کہ جماعت اسلامی آپ کی دشمن ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا حکم دے دیا
محمد فاروق نے مزید کہا کہ ڈملوٹی پر آپ کو اور حکومتی ادارے کا مسئلہ ہے وہ آپ آپس میں طے کرینگے ڈملوٹی سے تین اضلاع کو پانی فراہم کیا جاتا ہے لیکن وہاں اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے، ساتھ ہی ملیر کینٹ کا پمپ ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے نا کوئی اور مسئلہ ہے، سویلین کی طرف جہاں سے پانی جاتا ہے وہاں سارے مسئلے ہیں۔
دوران خطاب محمد فاروق نے کہا کہ آپ لوگ ایسا کوئی نظام نہیں بنا سکے کہ بل ادا کرنے اور نا ادا کرنے والے میں تفریق کی جاسکے، اگر ایک پی ایم ٹی پر سو میں سے40 لوگ بل نہیں بھرتے تو باقی 60 کو سزا کیوں دی جاتی ہے سو میں سے40 لوگ بل نہیں بھرتے تو باقی 60 کو سزا کیوں دی جاتی ہے۔
انھوں نے تجویز دی کہ کہا کہ واٹر پمپس کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنی قرار دیا جائے تاکہ پانی کی سپلائی نا رکے۔
ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے کہا کہ آپ نے کہا کہ ہمارا ایک ادارہ ہے ہم کوئی ستار ایدھی نہیں ہے، مانتے ہیں کے الیکٹرک کو کراچی والوں سے بہت شکایت ہے، آپ کے مسائل ہونگے لیکن آپ بتائیں مسائل کا حل کیا ہے؟
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کو ختم کرنے جارہے ہیں، لاہور کا جلسہ ڈو اور ڈائی ہے، عوام بھی جیل جانے سے نہ گھبرائیں، جلسے سے اگر روکا تو جیلیں بھر دیں گے۔
بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو بھی تباہ کر دیا تو پاکستان بنانا ریپبلک بن جائے گا۔ آئینی عدالت کے معاملے پر پوری طرح بحث ہونی چاہیے، سپریم کورٹ آخری ادارہ ہے جس سے لوگوں کو توقعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے علم تھا کہ یہ ترمیم آنی ہے ، جو بھی ہونا تھا پوری مشاورت کے بعد ہونا چاہیے تھا رات کے اندھیرے میں نہیں ہونا چاہیے تھا، اس سے ان لوگوں کا مقصد پتہ چلتا ہے۔ قاضی فائز عیسی کو اس عدالت سے اٹھا کر آئینی عدالت میں بٹھا دیں گے، میں نے ایسے فیصلے کرنے والے ڈفر اور کم عقل بہت کم دیکھے ہیں، یہ ڈرے ہوئے ہیں پھر کہتے ہیں اس کے پاس موبائل آتا ہے اور اس کو خبریں ملتی ہیں، مجھے تمہاری حرکتوں کی وجہ سے پہلے پتہ چل جاتا ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے تھے اس میں آئینی عدالتوں کا قیام بھی موجود تھا، اب آپ کا کیا مؤقف ہے۔
عمران خان نے آئینی ترامیم پر فضل الرحمان کے کردار پر شک کا اظہار کردیا
جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ہر چیز کا کوئی تناظر ہوتا ہے، تب میں اور آج میں فرق ہے، اس وقت آئینی ترمیم کا مقصد صرف اور صرف قاضی فائز عیسی کو بچانا ہے، یہ جو کرنے جارہے ہیں یہ آئین کے خلاف ہے۔
سپریم کورٹ میں حکومتی مجوزہ ترمیمی پیکج کیخلاف درخواستیں دائر ہونے کا سلسلہ جاری
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ لاہور کا جلسہ do or die ہے، یہ اب بے شک جو مرضی کرلیں، ہم نے پوری پارٹی کو کہہ دیا ہے، باہر نکلیں، 15 ماہ سے جیل میں ہوں مزید بھی جیل میں رہنے کو تیار ہوں ، عوام بھی جیل جانے سے نہ گھبرائیں، جلسے سے اگر روکا تو جیلیں بھر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ لائن کے ایک طرف وہ کھڑے ہیں جو ووٹ کو عزت دینے کی بات کر کے بوٹ کو عزت دے رہے ہیں، جمہوریت ڈنڈے کے زور پر یا غلام بنا کر نہیں چلتی، راولپنڈی کے کمشنر نے بالکل درست کہا تھا کہ قاضی عیسی اور چیف الیکشن کمشنر ملے ہوئے تھے، یہ ایمپائروں کو توسیع دینا چاہتے ہیں تاکہ یہ ایکسپوز نہ ہو سکیں۔
مولانا فضل الرحمان سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے تم مجھ سے کیا کہلوانا چاہتے ہو، تم ہیڈلائن کے چکر میں مجھے ٹریپ کرنا چاہتے ہو، مجھے 28 سال ہوگئے ہیں سیاست میں اتنی سمجھ تو ہے مجھ میں، تم میری ساری گفتگو کو ایک طرف کرکے کوئی ہیڈ لائن بنانا چاہتے ہو۔
افغان قونصلر کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہونے سے متعلق سوال پر بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ چھوڑو اس کو، یہاں ملک کے اور بہت بڑے ایشوز ہیں تمھیں اسکی پڑی ہے، ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے اور تم اس کی بات کر رہے ہو۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سینیٹر حامد خان وکلا تحریک کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی آئینی عدالت کو نہیں مانتے، ہم ہر طرح سے آپ کو ناکام بنائیں گے۔
حامد خان نے لاہور ہائیکورٹ میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ جج تحصیل دار ہیں جنہیں ٹرانسفر کرنا چاہتے ہو؟
انہوں نے کہا کہ وکلا تحریک کا آج آغاز ہوا ہے، اس کا اگلا کنونشن کراچی میں ہوگا۔
فضل الرحمان نے آئینی ترامیم کا مسودہ مکمل مسترد کردیا، منانے کیلئے حکومت کی سر توڑ کوششیں
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسا کوئی آئینی پیکج ہمیں قبول نہیں ہے، ترمیم پر بحث ہوتی ہے اسے اوپن رکھا جاتا ہے، انہوں نے ترمیم کو چھپا کر رکھا۔
حامد خان نے کہا کہ یہاں آئینی عدالت کی ضرورت نہیں ہے، بھارت، آسٹریلیا سمیت کہیں آئینی عدالت نہیں ہے، یہاں بھی آئینی عدالت کی ضرورت نہیں ہے، اس کا مقصد آئین کو تباہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی آئینی عدالت کو نہیں مانتے، ہم ہر طرح سے آپ کو ناکام بنائیں گے۔
حامد خان نے کہا کہ یہ آئینی پیکچ اپنے گھروں کو لے کر جاؤ، ہم آئین کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔
ایڈووکیٹ علی احمد کرد نے بھی وکلا کنونشن سے خطاب کیا۔
26 اکتوبر کو سینیئر ترین جج چیف جسٹس بنیں گے، ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع پیکج کا حصہ نہیں، وزیر قانون
ایڈووکیٹ علی احمد کردک ا کہنا تھا کہ ہم وکلا ایک آدمی ہیں، ایک طاقت ہیں، جب وکلا کا سیلاب باہر نکلے گا تو کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔
علی احمد کرد نے کہا کہ دنیا بدل چکی ہے، بنگلا دیش کی مثال سب کے سامنے ہے، جب لوگ بھوک اور افلاس سے مرتے ہیں اس وقت تمہاری غیرت نہیں جاگتی، وزیر قانون بھی یہ کہہ رہا ہے مجھے ابھی ترمیمی مسودہ ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ثابت کیا ہے ملک میں ایک طاقت ہیں، جب یہ سیلاب باہر نکلے گا دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی، ہم آئینی اور قانونی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں جب چلینج کیا تو ہم باہر نکلے تھے، وکلاء نے ہی ضیاء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھی۔
پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے بھی کنونشن سے خطاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 76سالہ تاریخ میں ایسا نہیں ہوا جو آج آئین کے ساتھ ہورہا ہے، کچھ کالی بھڑیں بھی کالےکوٹ میں اس ترمیم میں شامل ہیں، ہماری اسٹیبلمشنٹ نے پکے کے ڈاکوؤں کو پارلیمنٹ میں بٹھا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ادارہ رہ گیا تھا عدلیہ، اس کو بھی غلام بنانے جارہے ہیں، سپریم کورٹ سے ہمیں انصاف ملتا رہا، آج آپ اس کو سیشن کورٹس کی طرح بنانے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صورت حال دیکھیں پنجاب میں چادر چار دیواری کو پامال کیا جارہا ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے حق میں تحریک چلائی، آج شرمندگی ہورہی ہے کہ ہم نے ان کی تحریک چلائی، یہ چیف جسٹس تاریخ کے بدترین چیف جسٹس ثابت ہوئے ہیں۔
کنونشن کے اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ وکلا آئینی عدالت کو مسترد کرتے ییں
اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کی بنیاد پرچیف جسٹس تعینات کیا جائے، وکلا نام نہاد آئینی پیکج کو مسترد کرتے ہیں، قومی اسمبلی کے پاس ترامیم پیش کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ آئینی پیکج آئین کے خلاف ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے، سمجھوتہ کرنے والے وکلا اور ان کی کمیٹی کو مسترد کرتے ییں، جسٹس سید منصور علی شاہ کو چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔
ایک طرف سپریم کورٹ میں حکومتی مجوزہ ترمیمی پیکج کے خلاف درخواستیں دائر ہونے کا سلسلہ جاری ہے، تو دوسری جانب بار کونسل کے چھ ممبران کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جانے کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عاٸد کر دٸیے ہیں۔
رجسٹرار آفس نے بار کونسل کے چھ ممبران کی درخواست پر آٹھ اعتراضات عائد کیے، جن میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
رجسٹرار آفس نے اعتراض میں کہا کہ درخواست میں مفروضوں پر مبنی سوالات اٹھائے گئے ہیں، پارلیمنٹ کے اراکین کے پاس قانون پاس کرنے کا اختیار ہے مگر درخواست میں انہیں فریق نہیں بنایا گیا۔
26 اکتوبر کو سینیئر ترین جج چیف جسٹس بنیں گے، ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع پیکج کا حصہ نہیں، وزیر قانون
اعتراض میں کہا گیا کہ درخواست میں وفاق، صوبوں اور صدر مملکت کو فریق بنایا گیا جو پارلیمان کے رکن نہیں ہیں۔
اعتراضات میں کہا گیا کہ آئین کے تحت مقننہ کو حاصل قانون سازی کے اختیار کو قانون بننے سے پہلے محدود نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست پر یہ بھی اعتراض عائد کیا گیا کہ قانون کے تحت وکلاء کو پارٹی نہیں بننا چاہیے۔
خیال رہے کہ 16 ستمبر کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عابد زبیری، شفقت محمود، شہاب سرکی، اشتیاق احمد خان، منیرکاکڑ اور دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے، مجوزہ آئینی ترامیم کو اختیارات کی تقسیم اورعدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو آئینی ترامیم سے روکا جائے۔
آئینی پیکج میں وکلا کی رائے شامل ہوگی، بارز کے علاوہ کسی کو ہڑتال کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ بار
درخواست میں کہا گیا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے بل کو پیش کرنے کے عمل کو بھی روکا جائے، پارلیمنٹ اگر آئینی ترامیم کرلے تو صدرمملکت کو دستخط کرنے سے روکا جائے اور مجوزہ آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی، اختیارات اور عدالتی امور کو مقدس قرار دیا جائے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیار کو واپس یا عدالتی اختیارات میں ٹمپرنگ نہیں کرسکتی۔
درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ بل میں آئین میں 40 سے زائد ترامیم شامل ہیں، جن میں ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام، آئین کے آرٹیکل 175-اے سمیت دیگر ترامیم، سپریم کورٹ اور پاکستان کی ہائی کورٹس کے اختیارات کو ایگزیکٹو کو منتقل کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ، آئین کے آرٹیکلز 17 اور 63-اے میں بھی ترامیم کی گئی ہیں، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو انحراف کی بنیاد پر نااہل کرنے سے متعلق ہیں۔ یہ ترامیم سیاسی جماعتوں اور ووٹرز کو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کرنے کے حق سے محروم کردیں گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے سینیٹر کامران مرتضیٰ کے بیان پر وضاحت جاری کردی ہے۔
مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان سے ایسی کوئی بات نہیں کی کہ آئینی ترمیم منظور کرنا مجبوری ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا تھا کہ ہمیں جو پہلا مسودہ دیا گیا وہ ووٹنگ سے پہلے آدھی رات کو دیا گیا، اس کے تھوڑی دیر بعد ہی بلاول بھٹو تشریف لے آئے، بلاول بھٹو کے سامنے تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا مجھے بھی تحفظات تھے لیکن مجبوری ہے، ہم نے بلاول سے کہا آپ کی مجبوری ہوگی ہماری مجبوری نہیں ہے۔
آئینی پیکج میں وکلا کی رائے شامل ہوگی، بارز کے علاوہ کسی کو ہڑتال کی اجازت نہیں، سپریم کورٹ بار
مرتضیٰ وہاب کے مطابق بلاول بھٹو دیگر تجاویز کے بجائے آئینی عدالتوں سے متعلق صرف اپنے ڈرافٹ کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں خود ہفتے کو مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ملاقات میں شریک تھا، سینیٹر کامران مرتضیٰ کو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے آئینی عدالتوں کے قیام سے متعلق گفتگو کی، دونوں مجوزہ آئینی ترمیم کے بیشتر نکات کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔
مخصوص نشستوں کے معاملے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا ہے، جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ دیا ہے۔
الیکشن کمیشن میں درخواست محسن ایوب اور آمنہ شیخ کی جانب سے دی گئی، جس میں ن لیگ کے ارکان اسمبلی نے مؤقف اپنایا کہ سیاسی جماعت نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہیں دی وہ مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ جن امیداروں نے پارٹی وابستگی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا انہیں ڈکلیئرڈ کیا جائے، سیاسی جماعت میں جانے والے آزاد ارکان دوبارہ پارٹی تبدیل نہیں کر سکتے۔
ن لیگ کے ارکان نے درخواست میں مزید کہا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر دی ہے، پارلیمنٹ نے ترامیم کا اطلاق ماضی سے مؤثر قرار دیا ہے، ترمیم کے مطابق ایک مرتبہ وابستگی کا جمع سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ کے مطابق فہرست نہ دینے والی جماعت مخصوص نشتوں کی اہل نہیں، ترامیم کے مطابق ایک مرتبہ وابستگی کا جمع سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں ہو سکتا۔
اسپیکرز کے سکندر سلطان راجہ کے نام خطوط
دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے نام خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رہتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ آزاد اراکین کسی اور پارٹی میں شمولیت کی، وہ آزاد اراکین جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، ایکٹ جن آزاد اراکین نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا وہ آزاد تصور ہوں گے، ایکٹ پرعملدرآمد کیے بغیرالیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔
خط میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے ایکٹ کے تحت تھا جس کا اطلاق نہیں ہوتا، پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ صدر کی مںظوری کے بعد قانون بن گیا ہے، پارلیمانی نظام کی سالمیت اور آزادی کو برقرار رکھنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ اور جمہوری اصولوں کی پاسداری یقینی بنائے۔
دوسری طرف اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے خط میں کہا ہے کہ ایکٹ پرعملدرآمد کیے بغیرالیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کرسکتا، آزاد اراکین جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر آزاد اراکین نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا وہ آزاد تصورہونگے۔
محمد احمد خان نے لکھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے ، سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ آزاد اراکین کسی اور پارٹی میں شمولیت کی ، سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے ایکٹ کے تحت تھا جس کا اطلاق نہیں ہوتا، پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ صدر کی مںظوری کے بعد قانون بن گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ترمیمی ایکٹ اورپارلیمانی بالادستی کو یقینی بنایا جائے پارلیمانی خودمختاری کے اصولوں کی بالادستی کیلئے اہم معاملہ ہے، اداروں میں عوامی اعتماد کویقینی بنانا ضروری عمل ہے، پارلیمان کی خودمختاری کیخلاف کوئی بھی قدم جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمان کی بالادستی کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے، اسپیکر ایاز صادق نے ہمیشہ اسپیکر کی کرسی کے ساتھ انصاف کیا، پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ اچھا رہا، اسپیکر قومی اسمبلی نے ہمیشہ بہترین انداز میں امور انجام دئے، اُن کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی رکن کی حق تلفی نہ ہو، سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلوں کی تائید کی ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا الیکشن کمیشن کو خط سنگ میل ہے، آئین میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے، یہ اختیار کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں، پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے، کسی پارٹی میں شامل ہونے والا رکن دوبارہ کسی اور جماعت میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے، اسپیکر نے آج جو قدم اٹھایا اس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، کسی ادارے کو حق حاصل نہیں کہ وہ آئین کی اپنی مرضی سے تشریح کرے اور پارلیمان کو کمزور کرنے کی کوشش کرے، آئین اور قانون عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے، پارلیمان کی بالادستی کے لئے ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے صوبائی حلقہ پی بی 14 میں پیپلز پارٹی کی دوبارہ گنتی اور ریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات کی درخواست مسترد کردی جبکہ عدالت نے پیپلزپارٹی کے غلام رسول کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ن لیگ کے محمود خان کی کامیابی برقراررکھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈبے کھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، ووٹوں کے سامنے فارم 45 کی کوئی اہمیت نہیں، جھوٹا سچا اللہ جانتا ہے ہم حقائق پر فیصلہ کرتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 96 پولنگ اسٹیشنز میں سے 7 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی کی درخواست پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماء غلام رسول کے وکیل پیش ہوئے۔
دوران سماعت وکیل درخواست گزار شاہد رسول نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 96 پولنگ اسٹیشنز میں سے 7 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی کی درخواست دائر کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ غلط رزلٹ تیار کیا گیا؟ جس پر وکیل نے مؤقف اپنایا کہ فارم 45 کے مطابق یہ رزلٹ نہیں تھے اور افسران جانبدار تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ڈبے کھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ کاپیوں پر کیس چلا رہے ہیں، آپ کے گواہان نے پریزائیڈنگ افسران کا نام تک غلط بتایا، آپ کے گواہ تو خود کو پولنگ ایجنٹس بھی ثابت نہیں کرسکے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات میں سب سے اہم شواہد ووٹ ہوتے ہیں، فارم 45 تو پریذائیڈنگ افسر بھرتا ہے، یا تو دوبارہ گنتی پر اعتراض کریں کہ ڈبے کھلے ہوئے تھے ؟
جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے آپ کے الزامات ثابت نہیں ہوتے، کیس بہت سادہ ہے۔
وکیل شاہد رسول نے مؤقف اپنایا کہ جج صاحب نے بغیر شواہد کے مجھے فیصلے میں جھوٹا کہہ دیا، جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹا سچا اللہ جانتا ہے ہم حقائق پر فیصلہ کرتے ہیں، یہ کوئی میاں بیوی کا مقدمہ نہیں جو سچا جھوٹا فیصلہ کریں گے، اس کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ پریزائیڈنگ افسران کی جانبداری ثابت کریں، بتائیں کیا وہ رشتہ دار تھے ؟ دوبارہ گنتی پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، پریزائڈنگ افسر جانی دشمن بھی ہوتو فیصلہ ووٹ سے ہوتا ہے، ووٹوں کے سامنے 45 فارم کی کوئی اہمیت نہیں۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پریزائیڈنگ افسران نے سارا فراڈ کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یونہی الزام نہ لگائیں قانون یا کوئی فیکٹ بتائیں۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام رسول کی دوبارہ گنتی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محمد خان لہری کی کامیابی کو برقرار رکھا۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 14 میں 2024 کے عام انتخابات میں مسل لیگ (ن) کے امیدوار 22 ہزار 639 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں حکومتی مجوزہ ترمیمی پیکج کے خلاف درخواستیں دائر ہونے کا سلسلہ جاری ہے، عدالت عظمیٰ میں آج دوسری درخواست بھی دائر کردی گئی۔
حکومتی مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دوسری درخواست پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) لاہور کے صدر شیخ امتیاز محمود، وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ اور سول سوسائٹی کے صدر عبداللہ ملک کی جانب سے دائر کی گئی۔
درخواست میں وزارت وفاقی وزارت قانون اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی، سینیٹ، پرنسپل سیکرٹریز، وزیر اعظم اور صدر بھی فریقین میں شامل ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو آئین پاکستان کے برخلاف قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو مجوزہ آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روکا جائے۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف کیس کی جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ قرارداد مقاصد کے تحت عدلیہ کی آزادی آئین پاکستان کا بنیادی جزو ہے لہذا دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کی صورت میں آئینی ترامیم کے نفاذ کو روکا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 238 اور 239 میں ترامیم عدلیہ کی آزادی کو تباہ کردیں گی، پارلیمنٹ آئین پاکستان کے بنیادی جزو میں ترامیم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ ریاست کے ایک اہم ستون کو کمزور کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، ججز کی تقرری کا عمل کسی قسم کی بھی سیاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن میں اراکین پارلیمنٹ کی شمولیت اختیارات کی تقسیم کے اصول کے منافی ہے، ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کو متوازی طور پر چلانے سے انصاف کا نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا، یہ تمام ترامیم خفیہ اور رات کے اندھیرے میں تیار کی گئیں، جو کہ بدنیتی کا ثبوت ہے۔
اس سے قبل، خیبرپختونخوا کابینہ نے وفاقی حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی درخواست دائر کرنے کی منظوری دے دی۔
آئین میں سب سے خطرناک ترامیم کونسی؟ مسودہ منظر عام پر آنے کے بعد وکلا کے خدشات میں اضافہ
مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی درخواست دائر کرنے کے حوالے سے کابینہ نے کہا کہ اس وقت پارلیمنٹ، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں نامکمل ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کو اس کی مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں، اس لیے کوئی بھی آئینی ترمیم منظور نہیں کی جا سکتی۔
لاہور میں 21 ستمبر کو ہونے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ممکنہ جلسے کے لیے پولیس نے اپنا لائحہ عمل تیار کرلیا، پولیس حکام نے تمام ایس ایچ اوز کو 9 مئی میں ملوث بقیہ ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دے دیا ہے۔ اسی دوران پولیس نے 12 پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مزید مقدمات درج کر لیے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے ممکنہ لاہور جلسے سے قبل کریک ڈاؤن شروع ہوگیا، پولیس حکام نے تمام ایس ایچ اوز کو 9 مئی میں ملوث بقیہ ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دے دیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے تمام ڈویژنل ایس پیز کریک ڈاؤن کی نگرانی کریں گے، ممکنہ جلسے کے لیے پولیس نے اپنا لائحہ عمل بھی تیار کر لیا۔
پی ٹی آئی کا 21 ستمبر کو لاہور میں جلسہ، 27 رکنی کمیٹی کا اعلان
پولیس حکام کے مطابق جلسہ کا مقام فائنل ہونے پر حتمی سیکیورٹی کا فیصلہ کیا جائے گا، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اجازت ملنے پر سیکیورٹی ڈیوٹی لگائی جائے گی، ممکنہ جلسہ کے پنڈال کے داخلی دروازوں پر کیمروں سے ریکارڈنگ کی جائے گی۔
پولیس حکام کا مزید کہنا ہے داخلی دروازوں پر تعینات اہلکاروں کے پاس 9 مئی میں مطلوب ملزمان کی تصاویر اور ڈیٹا موجود ہو گا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے 21 ستمبر کو لاہور میں ممکنہ جلسے سے قبل پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق فتح گڑھ میں رہنما پی ٹی آئی علی عدنان کے ڈیرے پر پولیس کی بھاری نفری نے ریڈ کی اور ڈیرے پر توڑ پھوڑ بھی کی، پولیس منشی آفس کے لاکر توڑ کر 2 لاکھ 35 ہزار بھی لے گئے۔
پی پی 151 کے پی ٹی آئی رہنما جبران حیدر شاہ اور کارکن وسیم ملک کی رہائش گاہ پر بھی پولیس نے چھاپہ مارا تاہم دونوں رہنما رہائشگاہ پرموجود نہ ہونے کے باعث گرفتارنہ ہوسکے۔
لاہور پولیس نے پی ٹی آئی کے 12 رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمہ راستہ بلاک کرنے سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کرلیا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے ملزمان کرسیاں لگا کر بیٹھے تھے جس سے ٹریفک میں خلل پیدا ہو رہا تھا، ملزمان منع کرنے پر باز نہ آئے اور رش کا فائدہ اٹھا کر فرار ہوگئے۔
مقدمے میں غلام مصطفیٰ، تصور حسین، غلام محی الدین سمیت دیگر کو نامزد کیا گیا ہے۔
مقدمہ سب انسپکٹر خالد محمود کے بیان پر درج کیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو تبدیل کرنے کا الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، چیف جسٹس عامرفاروق نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو تبدیل کرنے کا الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 3 رہنماؤں شعیب شاہین ، عامر مغل اور علی بخاری کی ٹربیونل کی تبدیلی کے خلاف دائر درخواست منظور کرلیں۔
مختصر عدالتی فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو معاملہ واپس بھیجتے ہوئے دوبارہ فیصلے کی ہدایت کی ہے، چیف جسٹس عامر فاروق کے مطابق تحریری فیصلہ کچھ دیر بعد جاری کیا جائے گا۔
مبینہ جعلی ڈگری کیس: جسٹس طارق کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو تبدیل کرکے ریٹائر جج شکور پراچہ کو الیکشن ٹربیونل کا سربراہ تعینات کیا تھا جبکہ الیکشن کمیشن کے 10 جون کے فیصلے کو پی ٹی آئی امیدواروں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیا تھا۔
اسلام آباد کی قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے ناکام قرار دیے جانے والے پی ٹی آئی کے امیدوار شعیب شاہین، عامر مغل اور علی بخاری نے الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے 29 جولائی 2024 کو پی ٹی آئی امیدواروں کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جسے سناتے ہوئے آج عدالت نے الیکشن کمیشن کا اسلام آباد کے 3 حلقوں کے لیے الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ریٹائرڈ جج شکور پراچہ کو الیکشن ٹربیونل کا جج مقرر کرنے کا آرڈر بھی کالعدم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ 11 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے الیکشن ٹریبونل کو قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں این اے 46، این اے 47 اور این اے 48 کا باقاعدہ ٹرائل آگے بڑھانے سے روک دیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد کی تینوں نشستوں کے انتخابی نتائج کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں قائم الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کررکھا ہے۔
این اے 46 اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار عامر مغل نے انتخابی نتائج کو ٹریبونل میں چیلنج کیا۔این اے 47 اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار شعیب شاہین نے انتخابی نتائج کو چیلنج کردیا ہے۔
الیکشن ترمیمی ایکٹ کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
ان کے علاوہ این اے 48 سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار علی بخاری نے انتخابی نتائج کو ٹریبونل میں چیلنج کیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت کی درخواستوں پر نیشنل جوڈیشل پالیسی لے مطابق جلد فیصلہ کرنے کی ہدایات جاری کردیں جبکہ عدالت نے کہا کہ اسپیشل جج سنٹرل پالیسی مینڈیٹ کے مطابق ضمانت درخواستوں پر فیصلہ کر سکتے ہیں، ان پر سیشن کورٹ والے ٹائم فریم کا اطلاق ہو گا جس کے تحت ضمانت درخواستوں پر 5 دنوں میں فیصلہ ہونا چاہیئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت کا فیصلہ جلد سنانے کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 3 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کو پرائیویٹ کمپلینٹ پر عدت کیس میں 7 سال قید کی سزا ہوئی جس کے خلاف اپیل 13 جولائی کو ایپلیٹ کورٹ نے اپیل منظور کر کے بری کردیا، اڈیالہ جیل سے رہا ہونے پر انہیں ایک نیب انوسٹیگیشن میں گرفتار کر لیا گیا جس کا ریفرنس بعد میں دائر ہوا، 6 ستمبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ریفرنس پر احتساب عدالت کا دائرہ اختیار ختم ہو گیا جس پر احتساب عدالت نے وکلا کی جانب سے ضمانت درخواستوں پر فیصلہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریفرنس اور ضمانت درخواستوں کو اسپیشل جج سنٹرل کی کورٹ میں بھجوا دیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق درخواست گزار کے مطابق ان کی درخواست ضمانت بغیر وجہ التوا کا شکار ہے، درخواست گزار وکلا نے ضمانت کی درخواستوں پر جلد فیصلہ کی ہدایت کرنے کی استدعا کی، ایف آئی اے نے مؤقف اختیار کیا قانون کے مطابق عدالت ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کرے گی، ایف آئی اے کے پاس کیس ٹرانسفر ہونے کے بعد ضمانت کی درخواستیں اسپیشل جج سنٹرل کے پاس زیر التوا ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں مزید کہا کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق 5 دن میں ضمانت پر فیصلہ کرنا لازم ہے، اسپیشل جج سینٹرل پالیسی مینڈیٹ کے مطابق ضمانت پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق مجسٹریٹ کے لیے 3 دن میں ضمانت کا فیصلہ کرنا لازم ہے، سیشن کورٹ کو 5 اور ہائیکورٹ کے لیے 7 دن میں ضمانت کا فیصلہ کرنا لازم ہے، اسپیشل کورٹ پر سیشن کورٹ کے لیے دیا وقت اپلائی ہو گا، اسپیشل جج سنٹرل پالیسی مینڈیٹ کے مطابق ضمانت پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔
مجھے دلچسپی ہی نہیں کیس میں، اسپیشل جج سینٹرل ون کا کیس ہے، جج
عدالتی فیصلے کے بعد بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کی درخواست ضمانت پر آئندہ 5 کاروباری دنوں میں فیصلے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ 12 ستمبر کو توشہ خانہ ٹو کیس کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اےکی تین رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد احتساب عدالت نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ٹو ریفرنس نیب سے ایف آئی اے کو منتقل کردیا تھا۔
قبل ازیں، عدالت نے توشہ خانہ 2 ریفرنس کا ریکارڈ اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت کو منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
جبکہ 13جولائی کو نیب نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو عدت نکاح کیس میں ضمانت ملنے کے فوری بعد توشہ خانہ کے ایک نئے ریفرنس میں گرفتار کرلیا تھا۔
نیب کی انکوائری رپورٹ کے مطابق نیا کیس 7 گھڑیوں سمیت 10 قیمتی تحائف خلاف قانون پاس رکھنے اور بیچنے سے متعلق ہے۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی7، 7 سال قیدکی سزائیں معطل کردیں اور ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں، وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کے نئے ریفرنس کے لیے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن کیا تھا، نوٹیفکیشن نیب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 16 بی کے تحت جاری کیا گیا۔
دوسری جانب اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی 6 اور بشریٰ بی بی کی ایک مقدمے میں درخواست ضمانت پر سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکہ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 6 اور بشریٰ بی بی کی ایک مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی ، عمران خان کے وکیل خالد یوسف چوہدری عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عمران خان کی 6 اور بشریٰ بی بی کی ایک مقدمے میں عبوری ضمانت میں توسیع
توشہ خانہ کیس: عمران خان، بشریٰ بی بی کی گرفتاری غیر قانونی قرار دینے کی درخواستیں خارج
جج افضل مجوکہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک پر حاضری کے انتظامات مکمل ہیں، جس پر وکیل خالد یوسف چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے جزوی دلائل ہو چکے ہیں، حاضری لگ جائے تو تفصیلی دلائل کے لیے رکھ لیں۔
یاد رہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف تھانہ ترنول، رمنا، سیکرٹریٹ ، کوہسار اور تھانہ کراچی کمپنی میں 6 مقدمات درج ہیں جبکہ بشریٰ بی بی کے خلاف تھانہ کوہسار میں توشہ خانہ جعلی رسیدوں کا مقدمہ درج ہے۔
الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کردی جبکہ ممبرکمیشن نے ریمارکس دیے کہ اگر عمران خان کی پیشی کے لیے ویڈیولنک کی سہولت نہیں دے سکتے تو پھر ہم جیل سماعت کے لیے چلے جاتے ہیں۔
ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان اور فواد چوہدری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کی، فواد چوہدری اور بانی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کمیشن میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے موقف اپنایاکہ کمیشن نے بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کا آرڈر کیا تھا، جس پر ممبر کمیشن نے کہا کہ کمیشن نے جیل سے ویڈیولنک حاضری کا آرڈر کیا اس کا کوئی اثر ہوا۔
ڈی ڈی لاء ونگ نے بتایاکہ جیل کو لیٹرلکھا اس کی ریسیونگ بھی ہے، جس پر ممبر کمیشن نے کہا کہ سیکرٹری قانون اور سپریٹنڈںٹ جیل کو بلائیں پوچھا جائے کہ جیل حکام نے کیوں جواب نہیں دیا، ان سے پوچھا جائے، اگر ویڈیو لنک کی سہولت نہیں دے سکتے تو جیل سے جوابدہ کو بلا لیتے ہیں۔
اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ آپ خان صاحب کو بلانے کی دھمکی لگائیں، سب ٹھیک ہو جائے گا، جس پر ممبر کمیشن نے ریمارکس د یے کہ اگر کچھ نہیں ہوتا تو پھر ہم جیل سماعت کے لیے چلے جاتے ہیں۔
بعد ازاں کمیشن نے کیس کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
اگست 2022 میں الیکشن کمیش نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختلف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الزمات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات، تقاریر، پریس کانفرنسز کے دوران اپنے خلاف عائد ہونے والے بے بنیاد الزامات اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ، غلط بیانات و من گھڑت الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست کو اپنے جواب کے ساتھ کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ 30 اگست کو ذاتی حیثیت یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر، پریس کانفرنسز اور بیانات میں الیکشن کمیشن کے خلاف مضحکہ خیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، توہین آمیز بیانات دیے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو براہ راست مرکزی ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مخاطب کرکے نوٹس میں مزید کہا تھا کہ آپ نے 12 جولائی کو بھکر میں ہونے والے جلسے میں خطاب کیا جو ’اے آر وائی‘ پر نشر ہوا اور ساتھ ہی اگلے دن روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوا، جس میں آپ نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز باتیں کیں اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے نگراں حکومت میں بھرتی 1800 ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔
خیبر پختونخوا میں نگراں حکومت دور کی بھرتیوں کا کھاتہ کھل گیا، وزیراعلی علی امین گنڈا پور کی جانب سے 1800 ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ ملازمین کا احتجاج برداشت کرنے کو تیار ہوں، نگراں حکومت میں بھرتی ہونے والے غیرقانونی لوگوں کو تنخواہیں نہیں دوں گا، میرٹ اور باقاعدہ طریقہ کار کے تحت بھرتی افراد کو کچھ نہیں کہوں گا۔
علی امین گنڈا پور کا مزید کہنا تھا کہ نگراں حکومت کے پاس 1800 بندے بھرتی کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا، نگران حکومت میں وظائف مقرر کر کے باقاعدہ سیاسی جماعتوں کو کوٹے دیے تھے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ نگران حکومت میں وزراء کی بندر بانٹ ہوئی، تین تمہارے، چار میرے اور پانچ اس کے، انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کر کے لوگوں کو بھرتی کیا، انہیں تنخواہیں دینے کیلئے یہاں نہیں بیٹھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے ترجمان رؤف حسن کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں نام سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کردیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے رؤف حسن کا نام ای سی ایل اور پی سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی جبکہ رؤف حسن کے وکیل شاہنواز رانجھا عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی رہنما عالیہ حمزہ کی متنازع ٹوئٹ کے کیس میں ضمانت میں توسیع کردی جبکہ عدالت نے درخواست ضمانت پرحتمی دلائل طلب کر لیے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے پی ٹی آئی رہنما عالیہ حمزہ کے خلاف متنازع ٹوئٹ پر پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کی، عالیہ حمزہ اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
وکلاء نے استدعا کی کہ حتمی دلائل کی تیاری کے لیے وقت درکار ہے، آئندہ پیشی تک استدعا منظور کی جائے، اگلے ہفتے کی تاریخ رکھ دیں درخواست ضمانت پردلائل دیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے عالیہ حمزہ کی عبوری درخواست ضمانت میں 23 ستمبر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پارلیمنٹ ہاؤس سے رکن قومی اسمبلی زین قریشی کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سیکریٹری قومی اسمبلی سمیت دیگر کو 10 دن میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پارلیمنٹ ہاؤس سے رکن قومی اسمبلی زین قریشی کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ کب کا واقع ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار تیمور ملک نے عدالت کا آگاہ کیا کہ 9 ستمبر کو اراکین پارلیمنٹ کو گرفتار کیا گیا تھا، اس پر عدالت نے کہا کہ قومی اسمبلی سے رپورٹ لے لیتے ہیں۔
عدالت نے وزارت داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 دن میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 6 ممبران قومی اسمبلی کی پنجاب ہاؤس میں حراست میں رکھنے کے خلاف درخواست پر سماعت عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست پرسماعت کی، آئی جی اسلام آباد عدالتی حکم پرپیش ہوئے۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے پوچھا کہ کوئی چارممبران قومی اسمبلی آپکی حراست میں ہیں؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ متعلقہ پولیس افسر کی جانب سے بتایا گیا رکن قومی اسمبلی ریاض خان سے بیرون ملک ہے جبکہ 3 رکن قومی اسمبلی اورنگزیب کچھی، عثمان علی اور دیگر اپنی رہائش گاہ پرموجود ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وہ ڈی پی او کیسے کنفرم کریں گے کہ تینوں ممبران قومی اسمبلی اپنی رہائش گاہ پرموجود ہیں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی۔
خیبرپختونخوا حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیم کےخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا، صوبائی کابینہ نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی منظوری دے دی۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیرصدارت کابینہ کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں ارکان نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوان نامکمل ہیں، اب تک پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں، اس لیےپارلیمنٹ میں کوئی بھی آئینی ترمیم منظور نہیں کی جاسکتی۔
صوبائی کابینہ نے ڈبٹ مینجمنٹ فنڈ قیام اور قواعد کی منظور دیدی۔ مجوزہ فنڈ کے کنٹرول، انتظام، استعمال اور نگرانی کے حوالے سے ہے۔
صوبائی کابینہ نے اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضے کی پیشکش مسترد کردیا
وفاقی حکومت نے انتہائی غریب اور سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے 118.4 ملین امریکی ڈالر قرض لینے کی پیشکش کی تھی۔
پشاور : کابینہ سیلاب سے متاثرہ روڈ انفرا سٹرکچر کے لئے 9139.895 ملین سکیم کی منظوری دیدی۔ مختص رقم سیلاب اور طوفانی بارشوں سے تباہ ہونے والے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لیے ہوگا۔
کابینہ نے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے لیے 1.5 ارب روپے کی گرانٹ کی منظوری دیدی۔
وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے اکیڈمک سرچ کمیٹی کے قیام کی منظوری دیدی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر کوثر اے ملک کمیٹی کے کنوینر ہونگے۔ اکیڈمک سرچ کمیٹی ممبران میں پروفیسر ڈاکٹر انورالحسن، پروفیسر ڈاکٹر ایم اسلم بیگ اور پروفیسر ڈاکٹر سارہ صفدر شامل ہونگے۔
وائس چانسلرز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے بھی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ کمیٹی ڈاکٹر شفیق الرحمان،پروفیسر ڈاکٹر ظاہر شاہ اور ڈاکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکمل مشتمل ہوگی۔
کابینہ نے گورنمنٹ ڈگری کالج بوئی ایبٹ آباد کے قیام کے لیے اے ڈی پی منصوبے کی منظوری دی۔ ڈسٹرکٹ کورٹ کرم کے لیے ناکارہ گاڑی کو تبدیل کرنے کی منظوری دی گئی۔
کابینہ نے گاڑیوں کی خریداری پر پابندی میں نرمی کا فیصلہ کیا۔ پشاور ہائی کورٹ کے جج کے لیے گاڑی خریدنے کی مد میں 99 لاکھ سے زائد اضافی گرانٹ منظور کی گئی۔
کابینہ نے دیہی صحت مرکز نظام پور نوشہرہ کیٹیگری ڈی ہسپتال میں اپ گریڈ کرنے کی منظوری دیدی۔ کیٹیگری ڈی ہسپتال کے لی 11 کنال سرکاری اراضی محکمہ صحت کو منتقل کرنے کی منظوری دیدی
کابینہ نے مختلف اضلاع میں آؤٹ سورس ہسپتالوں فنڈز کی فراہمی کی منظوری دیدی۔ کابینہ نے رواں مالی سال کے لیے صحت کی دو اسکیموں کو غیر اے۔ڈی۔پی منصوبوں کے طور پر بحال کرنے کی منظوری دی۔ جن میں سوات میں بی ایچ یو کو آر ایچ سی میں اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ دیر لوئر میں میدان ہسپتال کو کیٹیگری ڈی سے سی میں اپ گریڈ کرنا شامل ہیں۔
چیسٹر یونیورسٹی، یو کے سے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی نرسوں کے لیے تربیتی پروگرام کی منظوری دی گئی۔ غلنئی، مامد گٹ، میران شاہ، زم ٹانک، وانا، پاراچنار، صدہ کرم اور باجوڑ میں ماڈل سکولوں کے لیے 166.154 ملین روپے کی گرانٹ کی منظوری دیدی۔
کابینہ نے خواندگی سب کے لئے “پروگرام کوایک سال کی توسیع دیدی۔ پروگرام کی لاگت 223.872 ملین روپے ہے۔
نوتھیا بازار میں آتشزدگی کے واقعے کے متاثرین کے لیے 14.87 ملین روپے پیکیج منظور کیا گیا۔
کابینہ نے ماحولیاتی تحفظ ٹربیونل، پشاور کے لیے نئے چیئرپرسن ملک ہارون اقبال کی تقرری کی منظوری دیدی