Live
turkiye

دو ریاستی حل ہی اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کا واحد حل ہے، پوپ لیو

اس وقت اسرائیل اس حل کو قبول نہیں کرتا، لیکن ہم اسے ہی واحد حل سمجھتے ہیں، پوپ لیو
شائع 01 دسمبر 2025 10:29am

عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ لیو نے کہا ہے کہ دو ریاستی حل ہی اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کا واحد حل ہے۔

ترکیہ سے لبنان جاتے ہوئے طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پوپ لیو نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت اسرائیل اس حل کو قبول نہیں کرتا، لیکن ہم اسے ہی واحد حل سمجھتے ہیں۔

پوپ لیو نے مزید کہا کہ ویٹیکن کی اسرائیل کے ساتھ دوستی بھی ہے اور وہ دونوں فریقوں کے درمیان مُصالحانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ایسا حل تلاش کیا جاسکے جس میں ہر ایک کے لیے انصاف شامل ہو۔

انہوں نے بتایا کہ ترکیہ کے صدر طیب اردوان سے ملاقات میں اسرائیل-فلسطین اور یوکرین-روس تنازعات پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو شروعات سے ہی فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے رہے ہیں، جبکہ اسرائیل کا حمایتی ملک امریکا بھی فلسطینی ریاست کی حمایت کا عندیہ دے چکا ہے۔

پوپ لیو نے یہ مختصر آٹھ منٹ کی پریس کانفرنس ترکیہ کے تین روزہ دورے کی تکمیل پر دی تھی، جو مئی میں روحانی پیشوا منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے دورے پر تھے۔

اسرائیلی ڈرون حملے میں لکڑیاں اکٹھی کرتے2 ننھے فلسطینی بھائی شہید

دوسری جانب اسرائیل کی فلسطین میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود خلاف ورزیاں جاری ہیں۔

غزہ کی وزارتِ صحت نے بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تین فلسطینیی شہید جبکہ دو زخمی ہوگئے ہیں۔

ادھر اسرائیلی ملٹری نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماس کے چالیس جنگجوؤں کو شہید کردیا ہے۔

خبرایجنسی کے مطابق جنوبی غزہ کی سرنگوں میں درجنوں حماس جنگجو موجود ہیں، سرنگوں کے اوپر کے علاقے اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں ہیں، جنوبی غزہ کے ٹنل نیٹ ورک میں موجود جنگجوؤں سے متعلق مذاکرات جاری ہیں۔

حماس نے جنگجوؤں کے محفوظ راستے کے لیے ثالث ممالک سے  اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ترکی: اسکول کے پرنسپل نے طالب علم کو سیڑھیوں سے دھکیل دیا

ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
شائع 13 نومبر 2025 03:59pm

ترکی کے شہر منیسا میں ایک اسکول پرنسپل کو 13 سالہ طالب علم کو بے رحمی سے سیڑھیوں سے دھکیلنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اسکول کی سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔

تفصیلات کے مطابق منیسا کے ضلع تورگتلو کے ایک سرکاری مڈل اسکول میں پیش آنے والے اس واقعے میں اسکول کے پرنسپل نے طالب علم کو زبردستی سیڑھیوں سے دھکیل دیا بتایا گیا ہے کہ وہ طالبِ عمل آٹزم کا شکار بھی ہے۔ ویڈیو میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ پرنسپل نے بچے کو سیڑھیوں سے دھکیل کر نیچے گرایا، جس کے نتیجے میں بچہ زخمی ہو گیا۔

ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ بچے کی والدہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اپنے بیٹے کو واپس اسکول سے لینے آئیں تو کپڑے مٹی سے بھرے ہوئے تھے اور اُس کی حالت خراب تھی۔

AAJ News Whatsapp

ترکی کی حکومت نے فوری طور پر اس واقعے کا نوٹس لیا اور اسکول کے پرنسپل کو عہدے سے ہٹا دیا۔ وزیرِ عدلیہ بیکیر بوزداغ نے اس واقعے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ”کسی بھی کمزور فرد کے ساتھ بدسلوکی ناقابلِ برداشت ہے اور ایسا عمل کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات پر فوری کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسکول میں تعلیم کے ماحول میں تشویش یا خوف کا عنصر نہ ہو۔

دہلی دھماکا: بھارت کی الزام تراشی پر ترکیہ کا سخت ردعمل

عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی میڈیا کی جھوٹی اور گمراہ کن خبروں پر یقین نہ کریں: ترک سفارت خانہ
شائع 13 نومبر 2025 09:33am

بھارتی دارالحکومت دہلی میں پیر کے روز ہونے والے لال قلعہ دھماکے کے بعد بھارت کے کئی میڈیا اداروں نے اپنی رپورٹوں میں ترکیہ کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکے میں ملوث ملزمان کو ترکیہ سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی، اور ان کے غیرملکی روابط انقرہ تک پہنچتے ہیں۔

بھارتی خبر رساں ادارے ”انڈیا ٹوڈے“ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی اداروں نے گرفتار ملزمان اور ایک غیرملکی ”ہینڈلر“ کے درمیان تعلقات کا سراغ لگایا ہے، جو مبینہ طور پر ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ سے کارروائیوں کی نگرانی کرتا تھا۔

انڈیا ٹوڈے نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ہینڈلر کا کوڈ نیم ”عکاسہ“ تھا، جس کے عربی میں معنی ”مکڑی“ ہیں۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ عکاسہ ممکنہ طور پر ایک فرضی نام ہے، جو اصل شناخت چھپانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

بھارتی اینکر ارنب گوسوامی کا مسلمانوں اور کشمیری رہنماؤں کے خلاف نفرت انگیز بیان

بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ عکاسہ براہِ راست مبینہ مرکزی ملزم ڈاکٹر عمر ان نبی اور اس کے ساتھیوں سے رابطے میں تھا۔ یہ رابطہ ”سیشن“ نامی خفیہ میسجنگ ایپ کے ذریعے کیا گیا، جو نگرانی سے بچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

مزید دعویٰ کیا گیا کہ تحقیقات کے مطابق، عکاسہ نے نہ صرف گروہ کی نقل و حرکت بلکہ مالی معاملات اور نظریاتی رہنمائی میں بھی کردار ادا کیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق، فریدآباد کے ایک مبینہ دہشت گرد نیٹ ورک کے چند افراد مارچ 2022 میں انقرہ گئے تھے، جہاں ان کی ملاقات اس ہینڈلر سے ہوئی۔ بعد ازاں، وہی افراد بھارت واپس آکر ”ڈاکٹر ماڈیول“ کا حصہ بن گئے، جو تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل گروہ تھا۔

بھارتی ایجنسیاں اب ان ملزمان کے موبائل، چیٹ ہسٹری، کال لاگز اور ڈیجیٹل شواہد کا جائزہ لے رہی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس نیٹ ورک کے پاکستان سے تعلقات تھے یا نہیں۔

بھارتی میڈیا کی پاکستان مخالف مہم، فالس فلیگ آپریشن کا ایک اور مکروہ کھیل بے نقاب

تاہم، نئی دہلی میں ترک سفارت خانے نے ان بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ اپنے باضابطہ بیان میں ترک سفارتخانے نے کہا کہ “بھارت کے بعض میڈیا ادارے بدنیتی پر مبنی جھوٹی رپورٹس چلا رہے ہیں، جن میں ترکیہ کو دہشت گرد گروہوں کی مالی اور سفارتی مدد دینے والا ملک قرار دیا جا رہا ہے۔”

سفارت خانے نے واضح کیا کہ ترکیہ دہشت گردی کی ہر شکل کی سخت مذمت کرتا ہے اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ایسے بے بنیاد الزامات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنا اور ترکیے کے عالمی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔

ترک سفارت خانے نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی میڈیا کی جھوٹی اور گمراہ کن خبروں پر یقین نہ کریں۔

انقرہ نے باور کرایا کہ ”ترکیہ امن، استحکام اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے کام کر رہا ہے، نہ کہ کسی ملک کے خلاف۔“

ترک فضائیہ کا سی ون تھرٹی کارگو طیارہ آذربائیجان سرحد کے قریب گر کر تباہ

فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ طیارے کے فضا میں ہی دو ٹکڑے ہوئے اور دھواں چھوڑتا زمین پر جاگرا
شائع 11 نومبر 2025 08:47pm

ترک فضائیہ کا سی ون تھرٹی کارگو طیارہ آذربائیجان سرحد کے قریب گر کر تباہ ہوگیا، طیارہ آذربائجان سے روانہ ہوا تھا اور واپس ترکیہ جارہا تھا جب کہ طیارے میں 20 افراد سوار تھا، فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ طیارے کے فضا میں ہی دو ٹکڑے ہوئے اور دھواں چھوڑتا زمین پر جاگرا۔

ترک میڈیا کے مطابق ترکی وزارتِ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ منگل کے روز ترک فضائیہ کا سی 130 فوجی کارگو طیارہ جارجیا کی فضائی حدود میں گر کر تباہ ہوگیا، طیارے میں 20 فوجی اہلکار موجود تھے۔

ترک وزارتِ دفاع کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سی 130 طیارہ آذربائیجان سے ترکی کے لیے روانہ ہوا تھا کہ جارجیا اور آذربائیجان کی سرحد کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا۔ آذربائیجانی اور جارجیائی حکام کے تعاون سے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا ہے تاہم حادثے کی وجوہات تاحال معلوم نہیں ہو سکیں۔

ہنگامی بنیادوں پر جاری کارروائی کے دوران حادثے کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے، جس میں طیارہ زمین کی طرف گھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے جب کہ اس کے پروں سے سفید دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے۔

بعد ازاں ترک صدر رجب طیب اردوان نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں اس حادثے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ممکنہ جانی نقصان کی نشاندہی کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ“ہمیں یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھ موصول ہوئی، اللہ ہمارے شہدا پر رحم فرمائے۔”

جارجیا کی وزیر خارجہ مکا بوچوریشولی نے ترک وزیر خارجہ ہاکان فدان سے فون پر رابطہ کرکے تعزیت کی اور امدادی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ < center>

AAJ News Whatsapp

ترک سفارتی ذرائع کے مطابق ترک وزیر داخلہ علی یرلی کایا نے بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے جارجیائی ہم منصب جیلا گیلاڈزے سے رابطہ کیا ہے تاکہ کارروائیوں کی مزید مؤثر ہم آہنگی ممکن بنائی جا سکے۔ ترک وزیر کے مطابق جارجیا کے وزیر داخلہ حادثے کی جگہ بھی پہنچ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ ترک فضائیہ کے پاس سی 130 ہرکولیس طیاروں کی تعداد تقریباً 20 ہے، سی 130 ہرکولیس 4 انجنوں والا ٹربو پراپ ٹرانسپورٹ طیارہ ہے، جو فوجی ساز و سامان کی ترسیل، فورسز کی نقل و حمل اور انسانی ہمدردی کے مشنز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کھردرے فضائی راستوں سے بھی اڑان بھرنے اور طویل فاصلے تک بھاری وزن لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پاک افغان کشیدگی: ترکیہ کا وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور انٹیلی جنس چیف کو پاکستان بھیجنے کا اعلان

ایران نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردی
شائع 10 نومبر 2025 08:46am

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ اُن کے ملک کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ افغان طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات پر پاکستان سے مشاورت کی جا سکے۔ ترک صدر کے مطابق اس وفد میں وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ شامل ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دورے کا مقصد مستقل جنگ بندی اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے عملی اقدامات کو حتمی شکل دینا ہے۔

ترکیہ کا یہ سفارتی اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی برقرار ہے۔ اس کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے ایران نے بھی ثالثی کی پیشکش کر دی ہے۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور پیشکش کی کہ ایران دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کم کرانے اور بات چیت بحال کرنے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

عباس عراقچی نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقوں کو مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں تاکہ غلط فہمیوں اور اختلافات کا خاتمہ ہو سکے۔

استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی: سفارتی ذرائع

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ علاقائی امن کے لیے بات چیت ناگزیر ہے اور ایران ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے لیے علاقائی امن و استحکام انتہائی اہم ہے، دونوں وزرائے خارجہ نے رابطے اور مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

دوسری جانب، ترجمان دفترِ خارجہ نے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کرے گا۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔

انہوں نے دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ “فتنہ الہندوستان” اور “فتنہ الخوارج” سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

ترجمان دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان گزشتہ چار سال سے افغان طالبان رجیم کے ساتھ رابطے میں ہے اور مذاکراتی عمل میں سنجیدگی دکھا چکا ہے۔ تاہم افغان طالبان نے اصل مسئلے کے بجائے غیر متعلقہ نکات پر بات کی اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے کو مہاجرین کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔

ترک صدر کا پاکستان اور افغانستان میں جنگ بندی برقرار رکھنے پر زور، دہشت گرد حملوں پر گہری تشویش

ترجمان نے کہا کہ اگر وہ واقعی مہاجرین ہیں تو انہیں چمن یا طورخم بارڈر کے راستے واپس بھیجا جائے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان قطر اور ترکیہ کی ثالثی کا شکر گزار ہے، لیکن افغان طالبان حکومت نے نہ تو دہشتگرد گروہوں کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ ہی سرحد پار حملوں کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات دور کیے۔

ترجمان نے کہا کہ طالبان حکومت محض جنگ بندی میں توسیع کی خواہش رکھتی ہے، جبکہ پاکستان خطے میں مستقل امن اور اپنے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

پاکستان کا افغان سرزمین دہشت گردی میں استعمال روکنے کا مطالبہ برقرار، ٹرمپ کی دوبارہ ثالثی کی پیشکش

سہولت کاروں کا کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے، قومی مفادات کا ہر حال میں دفاع کیا جائے گا، پاکستانی مؤقف
اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2025 06:29pm

استنبول میں پاک افغان مذاکرات کے تیسرے دور میں پاکستان نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے افغان سرزمین کا دہشت گردی میں استعمال روکنے کا مطالبہ برقرار رکھا ہے۔

استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان میں مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔ پاکستان افغان سرزمین کےدہشت گردی میں استعمال روکنے کے مطالبے پر قائم ہے، جبکہ افغان طالبان نے دیگر ممالک کو مانیٹرنگ میکانزم میں شامل کرنےکی تجویز دی ہے۔

مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف ہے کہ کسی بھی مِس ایڈونچر کا مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور قومی مفادات کا ہر حال میں دفاع کیا جائے گا۔

پاکستان نے کہا ہے کہ قطر کی طرح ترکیہ بھی غیر جانبدار بروکر ہے، جبکہ سہولت کاروں کا کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے۔

استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے وفود اس وقت استنبول میں موجود ہیں، تاہم گزشتہ روز مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔

افغانستان اور پاکستان کے حکام کے درمیان استنبول میں پیر کے روز مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہوا، تاہم دونوں ممالک تاحال پائیدار امن معاہدے تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

رائٹرز کے مطابق جنوبی ایشیا کے ان دونوں ہمسایہ ممالک نے 19 اکتوبر کو دوحا میں سرحدی جھڑپوں کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔ ان جھڑپوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے، جو 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک کی سب سے شدید جھڑپیں تھیں۔

ترکی کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد ایک طویل المدتی جنگ بندی کا معاہدہ طے کرنا ہے، مگر فریقین کے مؤقف میں نمایاں فرق برقرار ہے۔

رائٹرز کے مطابق پاکستانی سیکیورٹی ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ افغان طالبان مذاکراتی عمل میں تعاون نہیں کر رہے۔ ایک پاکستانی ذریعے کے مطابق، ”پاکستانی وفد نے واضح کر دیا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔“

دوسری جانب طالبان وفد کے ایک رکن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”یہ کہنا غلط ہے کہ طالبان مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور متعدد امور پر بات چیت جاری ہے۔“

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی اے سے گفتگو میں کہاکہ ”اسلامی امارت مذاکرات کی حامی ہے اور سمجھتی ہے کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔“

AAJ News Whatsapp

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے موجودہ مذاکراتی صورتحال پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم ہفتے کے روز پاکستان کے وزیرِ دفاع نے خبردار کیا تھا کہ، ”اگر استنبول مذاکرات میں معاہدہ نہ ہوا تو اس کا مطلب کھلی جنگ ہوگا۔“

دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کی رات کو ایک بار پھر پیشکش کی کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تنازع ختم کرنے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے ملیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا، “میں اس مسئلے کو بہت جلد حل کر دوں گا، میں دونوں ممالک کو اچھی طرح جانتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ ہم یہ معاملہ جلد نمٹا لیں گے۔”

ذرائع کے مطابق، مذاکرات کا اگلا سیشن استنبول میں ہی جاری رہے گا، اور اگر کوئی حتمی معاہدہ طے نہ پایا تو ممکن ہے کہ ترکی یا قطر میں مزید مذاکراتی دور بلایا جائے۔

طالبان کے مسودے میں شامل دو بنیادی مطالبات کیا ہیں؟

ترکیہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری مذاکرات دوسرے روز کوئی فیصلہ کن پیشرفت نہ ہوسکی۔ تاہم، دونوں ممالک کے وفود نے پندرہ گھنٹے طویل بات چیت کے بعد ممکنہ معاہدے کا مسودہ تیار کیا۔ اس دوران ثالثوں کی موجودگی میں دونوں جانب سے تجاویز کا تبادلہ بھی ہوا۔

افغان خبر رساں ادارے “طلوع نیوز“ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے وفد نے پاکستانی مذاکراتی ٹیم کے سامنے ایک مسودہ پیش کیا جس میں دو بنیادی مطالبات شامل تھے۔

اول یہ کہ پاکستان افغانستان کی فضائی حدود اور زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اور دوم، پاکستان اپنی سرزمین کسی ایسی تنظیم یا گروہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دے جو افغانستان کے خلاف کارروائی کرے۔

رپورٹ کے مطابق یہ مسودہ ثالثوں کے ذریعے پاکستانی وفد کو پہنچایا گیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنا نیا مسودہ افغان حکام کے حوالے کیا ہے۔

پاکستان نے اپنے مؤقف میں اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی اور منصوبہ بند حملوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

بین الاقوامی امور کے افغان ماہر واحد فقیری نے طلوع نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ”اگر ترکی میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں دونوں ممالک سرحدی کشیدگی کم کرنے اور باہمی تعاون پر متفق ہو گئے تو ایسا معاہدہ چند ماہ تک مؤثر رہ سکتا ہے۔“

رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک نے جنگ بندی کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک چار فریقی مانیٹرنگ چینل قائم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ چینل ممکنہ خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گا اور معلومات کے تبادلے کا پلیٹ فارم فراہم کرے گا۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر محمد بلال عمر نے بتایا کہ ”دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو فریقین کے اقدامات کی نگرانی کریں گی۔“

سہولت کاروں کے کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے، پاکستان

پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان سرزمین کا استعمال دہشت گردی کے لیے نہیں ہونا چاہیے، جبکہ افغان طالبان نے دیگر ممالک کو مانیٹرنگ میکانزم میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کیا ہے کہ قطر کی طرح ترکیہ بھی مذاکرات میں ایک غیر جانبدار بروکر کے طور پر سہولت کاری کر رہا ہے اور سہولت کاروں کے کسی ایک جانب جھکاؤ کا تاثر غلط ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرناک واقعے یا مِس ایڈونچر کا مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قومی مفادات کا ہر حال میں دفاع کرے گا۔

پاک افغان مذاکرات میں پاکستانی وفد کا افغان طالبان کو حتمی موقف پیش

پاکستانی وفد نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے
اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2025 04:46pm

ترکیہ کے شہر استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں پاکستانی وفد نے افغان طالبان کو حتمی موقف پیش کیا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق استبول میں جاری مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی کو نا منظور قرار دیا ہے۔

پاکستانی وفد نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے پڑیں گے، اس کے برعکس طالبان کے دلائل غیرمنطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔

پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں اور یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ذرائع کے مطابق گفتگو کا مرکزی محور افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنا ہے۔ دونوں فریقین قابل تصدیق مانیٹرنگ میکانزم کو مزید مؤثر بنانے پر غور کر رہے ہیں، اور مذاکرات میں اس نظام کی تشکیل و عمل درآمد پر تفصیلی بات ہوگی۔

سفارتی ذرائع نے بتایا تھا کہ اس دوران افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی نئی جگہ پر آباد کاری کی پیشکش کی تھی، جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے حملے ہرصورت رکنے چاہئے، افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال بند کرنا ہوگا۔

استنبول مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دہشتگردی کنٹرول کرنے کے میکنزم کو واضح کرنا ہوگا، اینٹی ٹیرر میکنزم واضح اور موثر ہونا لازمی ہو، پاکستان کا یہ اصولی مطالبہ تسلیم ہوگا تو ہی بات آگے بڑھے گی۔

پاکستان نے واضح کیا کہ تسلی نہ ہوئی تو پاکستان کوئی لچک نہیں دکھائے گا، ہم اچھے ہمسایوں اور برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہیں گے اور اپنے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

پاکستان کے 7 رکنی وفد میں سینئر عسکری، انٹیلی جنس اور وزارتِ خارجہ کے حکام شامل ہیں، جبکہ افغان طالبان کی قیادت نائب وزیرِ داخلہ کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات میں دونوں فریقین کے درمیان تجاویز کا تبادلہ جاری ہے اور ثالثوں کی موجودگی اس عمل کو مزید سہولت فراہم کر رہی ہے۔

قبل ازیں ترکیہ کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں نو گھنٹے طویل مشاورت کے بعد اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں کے وفود نے دوحہ میں ہونے والے پہلے مذاکرات میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا تفصیلی جائزہ لیا۔

پاکستان نے افغان طالبان کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک جامع پلان پیش کیا تھا۔ افغان طالبان نے اس پلان پر غور و خوض شروع کر دیا ہے اور آئندہ چند روز میں اپنے حتمی جواب سے پاکستان کو آگاہ کرنے کا عندیہ دیا۔

افغانستان کو ہرصورت فتنہ الخوارج کو لگام ڈالنا ہوگی، پاکستان نے پھر واضح کردیا

پاکستان کی جانب سے دو رکنی وفد مذاکرات میں شریک ہوا، جبکہ افغانستان کی نمائندگی نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب نے کی۔ مذاکرات کا آغاز دوپہر ڈھائی بجے شروع ہوا تھا اور رات گئے تک جاری رہا تھا۔ ترکیہ نے مذاکراتی عمل کی میزبانی کی، جبکہ قطر اس سفارتی کوشش میں ثالثی کے کردار میں شامل تھا۔

یاد رہے کہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہی پاک افغان مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ہوا تھا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔

ٹی ٹی پی کا سرحد پار نیٹ ورک بے نقاب: افغان خودکش بمبار کا اعترافی بیان منظرعام پر

دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر مذاکرات میں معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان افغان طالبان کے خلاف کھلی جنگ کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوحہ مذاکرات میں شریک افغان وفد وہی لوگ ہیں جو پاکستان میں جوان ہوئے۔ پاکستان نے چالیس برس تک افغان عوام کی میزبانی کی، مگر اب بغیر ویزے کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔

پاکستان خطے کا فاتح قرار، بھارت کو 25 سالہ محنت اور سفارتی اعتماد کے ضیاع کا خدشہ

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ بھارت افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے، لیکن پاکستان اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

ان مذاکرات کو پاک افغان تعلقات میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے، جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے اور سرحدی استحکام کے لیے کوششیں جاری ہیں، تو دوسری جانب اگر معاہدہ نہ ہوا تو خطے میں ایک نئی کشیدگی کے خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔

’حماس غزہ کا کنٹرول عبوری فلسطینی کمیٹی کو دینے پر آمادہ‘، پاکستان سمیت 8 عرب و اسلامی ممالک کا خوشی کا اظہار

حماس کی جانب سے جنگ ختم کرنے، تمام یرغمالیوں (زندہ یا مُردہ) کو رہا کرنے اور نفاذ کے طریقہ کار پر مذاکرات شروع کرنے کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے، مشترکہ اعلامیہ
شائع 05 اکتوبر 2025 01:42pm

وزارت خارجہ پاکستان نے آٹھ عرب و اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ جس میں غزہ میں جنگ کے خاتمے، یرغمالیوں کی رہائی اور قیامِ امن سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ تجویز پر حماس کے مثبت ردعمل کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔

مشترکہ اعلامیے کے مطابق، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے جنگ ختم کرنے، تمام یرغمالیوں (زندہ یا مُردہ) کو رہا کرنے اور نفاذ کے طریقہ کار پر مذاکرات شروع کرنے کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے۔

’بالوں سے گھسیٹا گیا، اسرائیلی جھنڈے میں لپیٹا گیا‘: فلوٹیلا سے گرفتاری کے بعد گریٹا تھنبرگ کے ساتھ کیا ہوا

اعلامیے میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو بمباری روکنے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عمل درآمد شروع کرنے کی اپیل کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کی خطے میں امن کے قیام کیلئے کوششوں کو سراہا گیا۔

AAJ News Whatsapp

وزرائے خارجہ نے کہا کہ یہ پیش رفت ایک جامع اور پائیدار جنگ بندی کے قیام کیلئے حقیقی موقع فراہم کرتی ہے، خاص طور پر جب غزہ کے عوام بدترین انسانی بحران سے دوچار ہیں۔

بیان میں حماس کی جانب سے غزہ کی انتظامیہ ایک عبوری فلسطینی انتظامی کمیٹی کو منتقل کرنے کی آمادگی پر بھی خوشی کا اظہار کیا گیا۔ وزرائے خارجہ نے زور دیا کہ اس تجویز پر عمل درآمد کے طریقہ کار اور تمام پہلوؤں پر فوری مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔

مشتاق احمد اور دیگر پاکستانی اسرائیلی فوج کی حراست میں مگر خیریت سے ہیں، دفترِ خارجہ

اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ نے اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وہ غزہ میں جنگ کے فوری خاتمے، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی، فلسطینیوں کے جبری انخلا کی روک تھام، شہریوں کے تحفظ، یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی اتھارٹی کی غزہ میں واپسی کیلئے متحدہ کوششیں جاری رکھیں گے۔

وزرائے خارجہ نے کہا کہ مقصد ایسا جامع معاہدہ ہے جو اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیر نو اور دو ریاستی حل کی بنیاد پر پائیدار امن کی راہ ہموار کرے۔

فرانس نے بھی فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرلیا، پاکستان سمیت مسلم ممالک کا خیر مقدم

آزاد فلسطینی ریاست کی گورننس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا، تمام دھڑے اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کریں گے: محمود عباس
اپ ڈیٹ 23 ستمبر 2025 11:50am
France Recognizes Palestine as Independent State - Pakistan News

فرانس نے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرتے ہوئے عالمی سیاست میں ایک تاریخی موڑ پر قدم رکھ دیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر ایک بڑی کانفرنس فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔ جس میں خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ اب مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا، غزہ میں جاری جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے اور دنیا امن کے موقع سے صرف چند لمحوں کے فاصلے پر ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھ کر ایک سو اکیاون ہوگئی ہے۔

کانفرنس کے مرکزی خطاب میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’پُرامن حل کا وقت آ گیا ہے‘ اور انہوں نے غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے، اغوا شدگان کی فوری رہائی اور دو ریاستی حل کی بحالی پر زور دیا۔

میکرون نے کانفرنس سے خطاب میں تسلیم کیا کہ عالمی برادری امن کے لیے مشترکہ ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے اور کہا کہ ’ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’غزہ میں جاری جنگ کا کوئی جواز نہیں‘، دنیا امن کے موقع سے محض چند لمحوں کے فاصلے پر ہے، اس لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات لازم ہیں۔

صدر میکرون نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام یرغمالیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کرے اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کمزوری نہیں دکھانی چاہیے، لیکن اسی وقت انسانی جانوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’زندگی زندگی ہے چاہے کسی کی بھی ہو، ہمیں جانیں بچانی ہوں گی‘۔

میکرون نے زور دے کر کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کی گورننس میں مسلح گروہوں کا حصہ نہیں ہوگا اور دو ریاستوں کے اصول کے تحت امن ممکن ہے۔

کانفرنس کے دوران میکرون نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری نے فوری طور پر عملی قدم نہ اٹھائے تو موقع ہاتھ سے نکل سکتا ہے، اس لیے ’ہمیں آنکھیں کھولنی ہیں‘ اور بدترین صورتحال کو ماضی کا حصہ بنانے کی کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔

میکرون نے یہ بھی کہا کہ حماس کو کمزور کیا گیا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی بحران میں کمی نہیں آئی، سیکڑوں ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں اور شہریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، اس لیے فوری امداد اور طویل مدتی بحالی منصوبوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنگ اور تباہی کے سلسلے کو روکنے کے لیے سب کو مشترکہ ذمہ داریاں اٹھانی ہوں گی۔

لندن میں پہلی بار فلسطینی سفارت خانے پر فلسطینی پرچم

برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک کی جانب سے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد لندن میں پہلی بار فلسطینی سفارت خانے پر فلسطینی پرچم لہرایا گیا، جبکہ فلسطینی مشن کو سفارت خانے کا درجہ دے دیا گیا۔

AAJ News Whatsapp

پاکستان سمیت مسلم ممالک کا خیر مقدم

پاکستان نے بھی فرانس اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعلانِ تسلیم کا خیر مقدم کیا ہے۔ نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ فلسطین کو آزادی کے اعلان کے بعد تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تمام ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ریاستِ فلسطین کو تسلیم کریں کیونکہ دو ریاستی حل نیو یارک ڈیکلریشن اور بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے۔

فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا جانا ایک اہم قدم ہے، حماس کا ردعمل

سعودی عرب نے بھی فرانس کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ اسرائیل غزہ میں وحشیانہ جرائم کر رہا ہے جبکہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں بھی مظالم جاری ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی کانفرنس کو امن کے حصول کا تاریخی موقع قرار دیا۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے عالمی برادری سے فوری طور پر فلسطین کو تسلیم کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کی گورننس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور تمام دھڑے اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کریں گے۔ محمود عباس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ اس نے ہمیشہ عالمی برادری کی یقین دہانیوں کی نفی کی ہے، لہٰذا اسے عالمی قوانین کا پابند بنایا جائے۔

’سب نمائشی ہے‘۔۔۔ مغربی ممالک کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان نیتن یاہو اور امریکا نے مسترد کردیا

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے زور دیا کہ دنیا بھر میں آزادی فلسطین کے نعرے گونج رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین علاقائی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے اور قیامِ امن کے لیے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ تنازع اخلاقی، قانونی اور سیاسی طور پر ناقابلِ برداشت سطح تک پہنچ چکا ہے۔ ان کے مطابق غزہ میں شہریوں کا قتلِ عام جاری ہے جبکہ مغربی کنارے میں بھی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ گوتریس نے واضح کیا کہ دو ریاستوں کا قیام ہی اس مسئلے کا واحد اور پائیدار حل ہے۔

قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کا اگلا نشانہ کون سا ملک؟

اسرائیل نے حملہ کیا تو کون سی حکمت عملی اپنائے گا؟
شائع 21 ستمبر 2025 03:17pm

مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے اور انقرہ میں اس بات پر گہری تشویش پائی جا رہی ہے کہ اب اسرائیل کا اگلا ہدف ترکیہ ہو سکتا ہے۔ قطر پر اسرائیلی فضائی حملوں کے فوراً بعد اسرائیل نواز تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں نے ترکیہ کے خلاف کھل کر بیان بازی شروع کر دی ہے۔

امریکا میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر رکن مائیکل روبن کا کہنا ہے کہ ’خطرہ ہے کہ ترکیہ اسرائیل کا اگلا ہدف ہے اور انقرہ کو اس خیال میں نہیں رہنا چاہیے کہ نیٹو اس کی حفاظت کرے گا‘۔

دوسری جانب اسرائیلی سیاستدان میر مصری نے سوشل میڈیا پر کھلے لفظوں میں لکھا، ’آج قطر، کل ترکیہ‘۔

حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی الوداعی تصاویر جاری کر دیں

اس بیان پر ترکیہ کے ایوانِ صدر سے انتہائی سخت ردعمل سامنے آیا اور صدر اردوان کے قریبی مشیر نے اسرائیل کو ’’صہیونی کتا‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جلد ہی تمہاری صفحۂ ہستی سے مٹنے کے بعد دنیا سکون کا سانس لے گی‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی میڈیا اور تھنک ٹینک کئی ماہ سے ترکیہ کو اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ترکیہ کی مشرقی بحیرہ روم میں موجودگی، شام میں اس کا اثر و رسوخ اور غزہ کے عوام کے ساتھ اس کی ہمدردی کو اسرائیل براہِ راست اپنے مفادات کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔

تُرک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے گزشتہ ماہ اسرائیل کے ساتھ تمام اقتصادی اور تجارتی تعلقات معطل کرنے کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ اسرائیل کی ’’گریٹر اسرائیل‘‘ پالیسی دراصل پورے خطے کو کمزور اور تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ خطے کے تمام ممالک غیر مؤثر اور منقسم رہیں تاکہ صہیونی بالادستی قائم رہے۔

اسرائیل نے حالیہ ہفتوں میں صرف غزہ ہی نہیں بلکہ یمن، شام اور تیونس تک حملے کیے ہیں۔ ان کارروائیوں نے انقرہ کے خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے کہ اسرائیل امریکی پشت پناہی کے ساتھ پورے خطے پر اجارہ داری چاہتا ہے۔

ریٹائرڈ ترک ایڈمرل جیم گوردنیز کے مطابق اسرائیل کی قبرص اور شام میں فوجی و انٹیلی جنس سرگرمیاں محض دفاعی اقدامات نہیں بلکہ ترکیہ کے ’’بلو ہوم لینڈ‘‘ نظریے کے خلاف ایک جارحانہ حکمتِ عملی ہیں۔ یہ نظریہ ترکیہ کی بحیرۂ روم، ایجیئن اور بلیک سی میں خودمختاری اور سمندری مفادات کے تحفظ کی پالیسی ہے۔ گوردنیز نے عرب خبر رساں ادارے ”الجزیرہ“ سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیل کا اصل مقصد ترکیہ کو گھیرنا اور ترک قبرصی عوام کے حقوق کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

جیم گوردنیز نے مزید کہا کہ ’قبرص میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فوجی اور خفیہ موجودگی، جو یونان اور یونانی قبرصی انتظامیہ کے ساتھ امریکی سرپرستی میں جڑی ہوئی ہے، انقرہ کے نزدیک ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد ترکیہ کے ’’بلو ہوم لینڈ‘‘ نظریے کو کمزور اور محدود کرنا ہے۔‘

برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کیے جانے کا امکان

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ اسرائیل کا دفاعی قدم نہیں بلکہ ایک جارحانہ گھیراؤ کی حکمتِ عملی ہے، جو ترکیہ کی سمندری آزادی اور ترک قبرصی عوام کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔‘ گوردنیز کی ترک قبرصی عوام سے مراد شمالی قبرص کی ترک جمہوریہ تھا، جسے صرف ترکیہ تسلیم کرتا ہے، جبکہ باقی قبرص یونانی قبرصی حکومت کے زیرِ انتظام ہے۔

قبرص کی تقسیم طویل عرصے سے ترکیہ، یونان اور قبرص کے درمیان کشیدگی کا بنیادی سبب ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے قبرص کو اسرائیلی فضائی دفاعی نظام فراہم کیا گیا ہے، جس نے انقرہ میں مزید تشویش پیدا کر دی ہے۔

ترکیہ میں نجم الدین اربکان یونیورسٹی کے عالمی و علاقائی مطالعاتی مرکز کے ڈائریکٹر گوکھان جنگکارا کا ماننا ہے کہ اگرچہ فی الحال انقرہ اور تل ابیب براہِ راست تصادم سے گریز کریں گے، لیکن اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی ترک قیادت کو اپنے دفاعی نظام مضبوط کرنے، فضائی و میزائل دفاع بڑھانے اور قطر، اردن اور عراق جیسے ممالک کے ساتھ نئے علاقائی اتحاد بنانے پر مجبور کر رہی ہے۔

قطر نے غزہ ثالثی کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے شرط رکھ دی، امریکی میڈیا کا دعویٰ

ایک اور ماہر نے کہا کہ اسرائیل ترکیہ کے خلاف روایتی جنگ شروع نہیں کرے گا بلکہ پراکسی جنگوں، خفیہ کارروائیوں اور شام جیسے میدانوں پر ٹکراؤ کے ذریعے ترکیہ کو دبانے کی کوشش کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی بڑھتی جارحیت اور ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا خواب مشرقِ وسطیٰ میں کتنی بڑی جنگ کی بنیاد ڈال سکتا ہے؟ اور کیا ترکیہ خطے میں اسرائیل کی توسیع پسند پالیسی کے سامنے بند باندھ سکے گا یا یہ کشیدگی آنے والے دنوں میں کھلے تصادم میں بدل جائے گی؟

وزیراعظم کی ترک صدر سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم بنانے پر اتفاق

مشکل وقت میں ترکیہ کی حکومت اور عوام پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ترک صدر
شائع 31 اگست 2025 05:11pm

وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے اجلاس کے موقع پر جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے اہم ملاقات کی ہے۔

ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے پاک ترک تعلقات کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا اور مختلف شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا۔

دونوں رہنماؤں نے سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور سلامتی کے شعبوں میں اعلیٰ سطح کے تبادلوں اور مشترکہ کاوشوں کو سراہا۔

صدر اردوان نے پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال میں قیمتی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصانات پر گہرے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ مشکل وقت میں ترکیہ کی حکومت اور عوام پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے اہم علاقائی اور عالمی امور پر بھی بات چیت کی۔ انہوں نے غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و نسل کشی کی پالیسیوں کی مذمت کے لیے بین الاقوامی فورمز پر مشترکہ کوششوں کے عزم کو دہرایا۔

وزیراعظم شہباز شریف اور رجب طیب اردوان نے اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کی پالیسیوں کی شدید مذمت کی۔

ملاقات میں پاکستان اور ترکیہ کے گہرے برادرانہ تعلقات پر اعتماد کا اظہار کیا گیا اور مسلم دنیا سمیت عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

ترکیہ کی دفاعی صنعت میں بڑی کامیابی ’اسٹیل ڈوم‘ متعارف کرا دیا

'یہ ایئر ڈیفنس سسٹم دوست ممالک کے لیے اعتماد اور دشمنوں کے لیے خوف کا باعث ہوگا' صدر اردوان
شائع 28 اگست 2025 11:24am

ترکی نے دفاعی صنعت میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا ہے۔ صدر رجب طیب اردوان نے جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹم ’اسٹیل ڈوم‘ کی فوج کو فراہمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ ملک کی سلامتی اور خود انحصاری کی جانب ایک تاریخی قدم ہے۔

اردوان نے انقرہ میں اسلسان کے مرکز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 47 جدید فوجی گاڑیاں، جن کی مالیت 460 ملین ڈالر ہے، فوج کے حوالے کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام دوست ممالک کے لیے اعتماد اور دشمنوں کے لیے خوف کا باعث ہوگا۔

’اسٹیل ڈوم‘ ایک جامع دفاعی نظام ہے جو مختلف بلندیوں سے آنے والے خطرات کے خلاف زمینی اور بحری دفاعی پلیٹ فارمز، ریڈار، سینسرز اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس نظام کے تحت حصار O-100 اور سپر میزائل سسٹمز، جدید ریڈارز، الیکٹرانک وار فیئر سسٹمز اور مختصر فاصلے کے فضائی دفاعی ہتھیار فوج کو فراہم کیے گئے ہیں۔

پاک فوج نے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا، وزیراعظم سے ترکیہ کے سفیر کی ملاقات

اردوان نے کہا کہ ترکی اب ایک ایسے دور میں داخل ہورہا ہے جہاں اپنی ضروریات کے لیے باہر پر انحصار نہیں کرے گا بلکہ اپنے بنائے ہوئے دفاعی نظاموں سے ملکی سلامتی کو یقینی بنائے گا۔

اسی موقع پر اسلسان کے اوغلبے (Ogulbey) ٹیکنالوجی بیس کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ یہ منصوبہ 1.5 بلین ڈالر کی لاگت سے بنایا جائے گا جو ترکی کی دفاعی صنعت میں اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اردوان کے مطابق یہ بیس یورپ کا سب سے بڑا مربوط ایئر ڈیفنس مرکز ہوگا اوراگلے سال اس کا پہلا حصہ کام شروع کردے گا۔

تقریب میں 14 نئی تنصیبات کا افتتاح بھی کیا گیا جن سے کمپنی کی پیداوار کی صلاحیت میں 40 فیصد اضافہ ہوگا اور تقریباً 4 ہزار افراد کو روزگار ملے گا۔

ترک صدر نے پاکستانی قوم کی حمایت کا ایک بار پھر واضح اعلان کردیا

صدر اردوان نے کہا کہ خطے میں جاری جنگوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فضائی خطرات کو پہچاننے کے لیے جدید راڈار اور دفاعی نظام کتنے ضروری ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ترکی اپنی سلامتی میں کسی طرح کی کوتاہی برداشت نہیں کرے گا۔

ترک وزیر دفاع یشار گولر نے بھی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اسٹیل ڈوم‘ مسلح افواج کی طاقت اور مؤثریت میں اضافہ کرے گا اور ملکی سلامتی کو اعلیٰ ترین سطح پر یقینی بنائے گا۔

ترکی کے وزیر ٹرانسپورٹ کو تیز رفتاری پر جرمانہ، قوم سے معافی مانگنی پڑ گئی

ترکی میں ہائی ویز پر زیادہ سے زیادہ رفتار کی حد 140 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
اپ ڈیٹ 27 اگست 2025 02:17pm

ترکی کے وزیر ٹرانسپورٹ عبدالقادر یورالوغلو نے اپنی تیز رفتار ڈرائیونگ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی، جو دیکھی جانے کے بعد انہیں جرمانہ کردیا گیا، ویڈیو میں وہ 225 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہے تھے، جو قانونی حد سے تقریباً دوگنا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ وزیرعبدالقادر کی گاڑی اناطولیہ کی مشہور انقرہ موٹروے پر دیگر گاڑیوں کو تیزی سے پیچھے چھوڑتی ہوئی اسپیڈ میں آگے بڑھ رہی تھی، جب کہ پس منظر میں ترک لوک موسیقی اور صدر رجب طیب اردگان کی تقریر کے کچھ حصے چل رہے تھے، جن میں حکومت کے انفراسٹرکچر منصوبوں کی تعریف کی گئی تھی۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ٹریفک پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے وزیر برائے ٹرانسپورٹ و انفرا اسٹرکچر عبدالقادر پر 9,267 ترک لیرا یعنی تقریباً 280 ڈالرز کا جرمانہ عائد کر دیا۔ یہ خلاف ورزی انقرہ کے قریب تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ریکارڈ ہوئی تھی۔

سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد وزیرِ ٹرانسپورٹ نے خود اپنی خلاف ورزی کے چالان کی تصویر پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کی اور لکھا، ’اپنی قوم سے معذرت خواہ ہوں۔‘

یاد رہے کہ ترکی میں ہائی ویز پر زیادہ سے زیادہ رفتار کی حد 140 کلومیٹر فی گھنٹہ (87 میل فی گھنٹہ) ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ سال کے دوران ملک بھر میں لگ بھگ 15 لاکھ ٹریفک حادثات ہوئے جن میں 6,351 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

ترکیہ کے جنگل میں لگی آگ 10 فائر فائٹرز نگل گئی

واقعہ بدھ کے روز اُس وقت پیش آیا جب 24 فائر فائٹرز آگ کے گھیرے میں آ گئے
شائع 24 جولائ 2025 09:13am

وسطی ترکیہ کے جنگلات میں لگی خوفناک آگ پر قابو پانے کی کوشش کے دوران دلخراش واقعہ پیش آیا، جس میں 10 فائر فائٹرز جاں بحق جبکہ 14 شدید جھلس کر زخمی ہو گئے۔ ترک وزیر زراعت و جنگلات کے مطابق جنگل کی آگ پر قابو پانے کے لیے کارروائیاں بدستور جاری ہیں، اور درجنوں فائر بریگیڈ اہلکار اب بھی آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔

واقعہ بدھ کے روز اُس وقت پیش آیا جب 24 فائر فائٹرز آگ کے گھیرے میں آ گئے۔ ریسکیو آپریشن کے دوران 10 اہلکاروں کی لاشیں نکال لی گئیں، جبکہ 14 جھلسے ہوئے افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

وزیر زراعت نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود امدادی ٹیمیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں تاکہ مزید جانی نقصان نہ ہو۔ آتشزدگی پر قابو پانے کے لیے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر اور زمینی عملہ مشترکہ طور پر آپریشن میں شریک ہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق آگ کسی نامعلوم وجہ سے بھڑکی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کئی ایکڑ پر پھیلے جنگل کو لپیٹ میں لے لیا۔ ترک حکام نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، جب کہ مقامی آبادی کو متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

ترکیہ میں حالیہ برسوں میں موسم گرما کے دوران جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ترکیہ اور آذربائیجان کے اعلیٰ عسکری حکام سے اہم ملاقاتیں

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی استنبول میں 17 ویں بین الاقوامی دفاعی صنعت نمائش میں شرکت
شائع 23 جولائ 2025 07:01pm

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ترکیہ کے سرکاری دورے کے دوران استنبول میں منعقدہ 17 ویں بین الاقوامی دفاعی صنعت نمائش میں شرکت کی، یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ نمائش جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی اورعسکری جدتوں کا مظہرہے، اس دوران انہوں نے ترکیہ اور آذربائیجان کے اعلیٰ عسکری حکام سے اہم ملاقاتیں کیں، جس میں دفاعی و سیکیورٹی تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دفاعی نمائش کے موقع پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ترک وزیر دفاع جنرل (ریٹائرڈ) یاشار گلر، آذربائیجان کے وزیر دفاع کرنل جنرل ذاکر حسنوف، ڈپٹی وزیر دفاع قربانوف آگل اور ترک چیف آف جنرل اسٹاف جنرل متین گوراک سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔

ملاقاتوں میں باہمی دفاعی تعاون، سیکیورٹی کے شعبوں میں وسعت اور مستقبل کے جیو اسٹریٹیجک ماحول سے ہم آہنگ مشترکہ شراکت داری کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے پاک افواج کی پیشہ ورانہ مہارت، انسداد دہشت گردی میں قربانیوں اور خطے میں امن واستحکام کے قیام میں کردار کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

ان ملاقاتوں میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان، ترکی اور آذربائیجان دفاعی شراکت داری کو مزید مستحکم کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی اورمشترکہ مقاصد کی بنیاد پرتعاون کوفروغ دیں گے۔

امریکہ نے 65 سال بعد اسمگل شدہ مجسمہ ترکی کو واپس کردیا

1960 کی دہائی میں ترکی کے قدیم شہر بوبون سے چرائی گئی مورتی واپس ترکی پہنچ گئی
شائع 20 جولائ 2025 01:16pm

ترکی کا قیمتی ثقافتی ورثہ واپس لوٹ آیا ہے۔ مشہور رومی بادشاہ، مارکس اوریلیئس کی قدیم کانسی کی مورتی جو کہ 65 سال پہلے ترکی سے غیر قانونی طور پر اسمگل کر لی گئی تھی، اب اپنے اصل وطن واپس پہنچ چکی ہے۔

یہ مورتی 1960 کی دہائی میں ترکی کے جنوب مغربی علاقے بوردور کے قدیم شہر بوبون سے چرائی گئی تھی۔ بوبون اپنی تاریخی اہمیت اور قدیم نوادرات کے لیے مشہور ہے۔ مارکس اوریلیئس کو ’فلسفی بادشاہ‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، جنہوں نے نہ صرف رومن سلطنت کی قیادت کی بلکہ فلسفے میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔

کراچی: ملیر میں ہزاروں سال قدیم چھوٹا قصبہ دریافت، موہن جو دڑو سے مشابہت

یہ قیمتی مورتی حالیہ مہینوں میں کلیولینڈ میوزیم آف آرٹ، امریکہ میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔ لیکن ترکی کی مسلسل کوششوں، مضبوط دلائل، سائنسی تجزیوں اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر امریکی حکام نے بالآخر اسے واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

ترکی کے وزیرِ ثقافت و سیاحت، مہمت ارسوی نے اس کامیابی کو ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’یہ ایک لمبی جنگ تھی۔ ہم حق پر تھے، ہم نے صبر کیا، ہم نے ہار نہیں مانی اور آخرکار ہم جیت گئے۔‘

انہوں نے اس موقع پر امریکی حکام، خاص طور پر مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے تحقیقاتی شعبے کے تعاون کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ واپسی محض ایک مجسمے کی نہیں بلکہ تاریخی اعتبار سے ایک بڑی کامیابی ہے۔

کپور خاندان کی وراثت: پشاور کی قدیم حویلی کی قیمت کروڑوں میں پہنچ گئی

وزیرِ ثقافت نے اس بات کا اعلان بھی کیا کہ یہ قدیم مورتی جلد ہی انقرہ میں ایک خاص نمائش میں عوام کے سامنے پیش کی جائے گی۔ یہ ترکی کی ان مستقل کوششوں کا نتیجہ ہے جو وہ اپنے چرائے گئے ثقافتی ورثے کو واپس لانے کے لیے کر رہا ہے۔ مارکس اوریلیئس کی واپسی نہ صرف ترکی بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثبت پیغام ہے۔

’استنبول‘ تنہائی میں تہذیب کی سنگت، ہزاروں کتابوں کی خاموش دانش گاہ

استنبول کی پُراسرار گلیوں میں چھپے پرانے کتب فروشوں کی دکانیں، ایسی دنیائیں جہاں ہر کتاب ایک خزانہ ہے
اپ ڈیٹ 13 جولائ 2025 02:44pm

کتابوں سے محبت کرنے والے وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو لفظوں کی خوشبو میں جیتے ہیں اور علم و خیال کے چراغ اپنے اندر روشن رکھتے ہیں۔ یہ وہ عظیم روحیں ہیں جو تنہائی میں بھی تہذیب، تاریخ اور حکمت کے ہم نشین ہوتے ہیں۔

کبھی آپ نے کسی پرانی کتاب کے زرد اور مہک دار ورق کو چھوتے ہوئے یوں محسوس کیا ہے جیسے وقت نے سانس لینا شروع کر دیا ہو؟ ایک ایسی کتاب جو برسوں پہلے کسی اور کی یادوں کا حصہ تھی، اب آپ کے ہاتھ میں اپنی خاموش کہانی سنا رہی ہو۔ استنبول کی پُراسرار گلیوں میں چھپے پرانے کتاب فروشوں کی دکانیں ایسی ہی دنیائیں ہیں، جہاں ہر کتاب ایک خزانہ ہے اور ہر دکان ایک داستان۔ اگر آپ بھی ان لمحوں کی تلاش میں ہیں جو کہیں پرانی سطروں میں دفن ہیں، توتحریر کا یہ سفر آپ کے دل کو چھو جائے گا۔

استنبول، جو تاریخ، تہذیب اور فنونِ لطیفہ کا گہوارہ ہے، اپنے قدیم اور منفرد کتاب فروش بازاروں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں وہ جگہیں موجود ہیں جہاں صرف کتابیں نہیں ملتیں بلکہ یادیں، خوشبوئیں اور داستانیں بکھری ہوتی ہیں۔ آئیے آج ہم آپ کو ایک خوبصورت سفر کی صورت ان خزانوں کا پتہ بتاتے ہیں۔

استنبول : فلسطینوں کی حمایت میں انسانوں کا سمندر امڈ آیا

ترکواز صحاف: کتابوں کا خزانہ تاریخ اور ادب کے قلب میں

2001 میں قائم ہونے والی ترکواز صحاف، بایوغلو میں واقع ایک مشہور پرانی کتابوں کی دکان ہے۔ اس کی بنیاد ادبیات کے دو شوقین طالبعلموں، امین ندرت اشلی اور پوزانت اکباش، نے رکھی۔ امین اشلی خود بھی ایک مصنف ہیں جن کی کتابیں ’کتاب خانے سے اشاعتی دنیا تک‘ اور ’صحاف نامہ‘ علمی حلقوں میں مقبول ہیں۔

یہاں تقریباً 40 ہزار نایاب کتب موجود ہیں جو صرف ترکی ہی نہیں بلکہ عثمانی، فرانسیسی، آرمینیائی، یونانی، عبرانی، انگریزی، اطالوی اور جرمن زبانوں میں دستیاب ہیں۔ تاریخ، ادب، طب، قانون اور کتاب سازی جیسے موضوعات پر اعلیٰ معیار کی کتابیں ترکواز صحاف کو ایک علمی جنت بنا دیتی ہیں۔

بایوغلو پرانی کتابوں کا بازار: فلمی دنیا سے حقیقی زندگی تک

اگر آپ نے معروف ترک فلم ’ایسس آدم‘ دیکھی ہو تو آپ کو بایوغلو کے قدیم کتاب بازار کا منظر ضرور یاد ہوگا۔ یہ بازار، استنبول کی مشہور شاہراہ استقلال پر تاریخی چچک پاساج کے قریب واقع ہے۔

یہاں صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ پرانے فلمی پوسٹرز، رسالے، گراموفون ریکارڈز، کیسٹیں، مجسمے، نوادرات، روایتی زیورات اور گھڑیاں بھی ملتی ہیں۔ ہر دکان ایک الگ دنیا ہے جو ماضی کی خوشبو سے مہک رہی ہوتی ہے۔ یہاں آنا گویا وقت کی پگڈنڈی پر چلنے جیسا ہے۔

استنبول: آیاصوفیہ آنے والا سیاح متاثر ہوکردائرہ اسلام میں داخل

ہیبلی صحاف: جہاں وقت بکتا ہے

ہیبلی ادا کے پرسکون جزیرے پر واقع ہیبلی صحاف، دراصل ’وقت بیچنے والی دکان‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی بنیاد 2011 میں بایوغلو کے ایک چھوٹے کتب خانے کے طور پر رکھی گئی تھی، جو بعد میں 2016 میں ہیبلی ادا منتقل ہو گیا۔

یہ کتب خانہ صرف ایک دکان نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے۔ یہاں کے مالک، ناظم حکمت ارکان، پرانی کتابیں فٹ پاتھ بازاروں، نیلامیوں، اور گھروں سے خرید کر نہایت محبت سے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ یہاں 1800ء کی دہائی کی انگریزی، فرانسیسی اور یونانی کتابیں بھی موجود ہیں۔ اگر آپ کبھی ہیبلی ادا جائیں، تو اس دکان کا رخ ضرور کریں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جو سکون سے معطرہے۔

اصلیحان پیسیج: کلاسیکی کتابوں کی گزرگاہ

بایوغلو کے کتاب بازار میں واقع اصلیحان پیسیج وہ جگہ ہے جہاں ہر راہگزر کو کچھ نہ کچھ قیمتی مل جاتا ہے۔ یہ پاساج اپنے قدیم کتب، کلاسیکی ناولوں، نایاب ایڈیشنز، مزاحیہ کتابوں، ریکارڈز اور پرانے پوسٹرز کے لیے مشہور ہے۔

یہاں داخل ہونا ایک مہم پر نکلنے جیسا ہے۔ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ہر دکان کے اندر ایک نیا جہاں آباد ہے۔ اگر آپ گلاتاسرائے ہائی اسکول کے سامنے والی گلی سے گزریں، تو اصلیحان پیسیج کا دروازہ آپ کے سامنے ہوگا۔

’استنبول کی خوبصورتی میں چار چاند لگانی والی ’بلو مسجد

ادبی سفر کا اختتام: پیرا پیلس ہوٹل میں

استنبول کی ادبی تاریخ سے جڑی ایک اور شاندار جگہ ہے، پیرا پیلس ہوٹل۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں عظیم مصنفہ آگاتھا کرسٹی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’Murder on the Orient Express‘ کا خاکہ تیار کیا تھا۔ کمرہ نمبر 411 ان کے قیام کی جگہ رہا ہے۔

یہ ہوٹل صرف رہائش کا مقام نہیں، بلکہ ایک زندہ داستان ہے۔ یہاں آپ نہایت عمدہ کھانوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور وہ کتابیں جو آپ نے ترکواز یا اصلیحان سے خریدی ہیں، انہیں ’اوریئنٹ ٹیرس‘ پر بیٹھ کر سکون سے پڑھ سکتے ہیں۔

اگر آپ ادب کے عاشق ہیں، ماضی سے جڑنے کی خواہش رکھتے ہیں، یا نایاب علمی خزانے کی تلاش میں ہیں، تو استنبول کے یہ پرانی کتابوں کے بازار آپ کے لیے جنت سے کم نہیں۔ ہر گلی، ہر دکان، اور ہر کتاب اپنے اندر ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔

ترکیہ مخالف کردستان ورکرز پارٹی کا انوکھا سرینڈر، دیگچی میں ہتھیار ڈال کر جلا دئے

پی کے کے کا اسلحے سے دستبرداری کا آغاز، ترکی سے چار دہائیوں پر محیط جنگ کے خاتمے کی امید
شائع 12 جولائ 2025 11:43am

کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے ترکیہ کے خلاف اپنے چار دہائیوں پر مشتمل مسلح مزاحمتی دور کا تاریخی اختتام کرتے ہوئے اسلحے سے دستبرداری کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ عراق کے شمالی کرد خطے کے شہر سلیمانیہ میں جمعے کے روز ہونے والی ایک علامتی تقریب میں ”پی کے کے“ کے 20 سے 30 جنگجوؤں نے اپنے ہتھیار تلف کیے، مگر انہیں کسی حکومت یا فورس کے حوالے نہیں کیا گیا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے اپنے ملک کے پاؤں پر پڑی خون آلود بیڑیاں اتار پھینکی ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل سے نہ صرف ترکی بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔

یہ پیش رفت پی کے کے کی جانب سے مئی میں دیے گئے اس اعلان کے بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے مسلح جدوجہد ترک کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ پی کے کے کو ترکی، یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔

علامتی تقریب اور تنظیمی موقف

سلیمانیہ میں ہونے والی تقریب سخت سیکیورٹی میں منعقد کی گئی جس میں پی کے کے جنگجوؤں نے اپنے ہتھیار خود تلف کیے۔ یہ عمل پورے موسمِ گرما میں مختلف مراحل میں مکمل کیا جائے گا، جس کی نگرانی ترکی، عراق اور کرد علاقائی حکومت مشترکہ طور پر کر رہی ہیں۔

پی کے کے کے قیدی سربراہ عبداللہ اوجلان، جو 1999 سے ترکی کے جزیرہ امرالی میں قید ہیں، نے جون میں ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں اس عمل کو ”مسلح جدوجہد سے جمہوری سیاست اور قانون کی جانب رضاکارانہ منتقلی“ قرار دیا اور اسے ”تاریخی کامیابی“ قرار دیا۔

عراقی اور ترک ردعمل

عراق کی نیم خودمختار کرد حکومت اور وفاقی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران تقریب میں شریک ہوئے۔ الجزیرہ کے رپورٹر محمود عبد الواحد نے اس موقع کو ”انتہائی علامتی“ قرار دیا تاہم خبردار کیا کہ ’یہ صرف آغاز ہے، ابھی طویل راستہ طے کرنا باقی ہے‘۔

پی کے کے کی جانب سے اوجلان کی رہائی اور شمالی عراق منتقل ہو کر جمہوری عمل کی قیادت جیسے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔

ادھر ترکیہ کے شہر استنبول سے الجزیرہ کی رپورٹر سینم کوسو اوغلو نے بتایا کہ انقرہ میں اس پیش رفت کو ایک ”نیا باب“ قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام ترک صدر اردوان کی منظوری سے ہوا اور اب وہ جماعتیں جو پہلے اس عمل کو غداری کہتی تھیں، اب اس کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس میں نیشنل موومنٹ پارٹی (MHP) اور مرکزی اپوزیشن جماعت CHP بھی شامل ہیں۔

عوامی امیدیں اور زمینی حقیقتیں

عراق کے ضلع آمیدی کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے افراد بھی اس عمل کو امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک مقامی کسان شیروان سرکلی نے بتایا، ’ترک فورسز اور پی کے کے کے درمیان لڑائی میں ہماری زمینیں اور کھیت تباہ ہوئے۔ میرے بھائی کی لاکھوں کی مالیت کی بھیڑیں بھی ختم ہو گئیں۔‘

مقامی کمیونٹی لیڈر احمد سعداللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر پی کے کے چلی جائے تو گولہ باری بھی بند ہو جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ امن معاہدے پر عملاً عملدرآمد ہو تاکہ ہم واپس اپنے گھروں کو جا سکیں۔‘

ترک وزیردفاع سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گئے

جبکہ ترک وزیرخارجہ آج رات اسلام آباد پہنچیں گے، ذرائع
شائع 08 جولائ 2025 11:35pm

ترک وزیردفاع یاشر گوولر سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گئے، ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ نے ان کا استقبال کیا۔

ترجمان دفترخارجہ کے مطابق ترک وزیر دفاع یاشر گوولر سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے، ترک وزیردفاع کا ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ نے استقبال کیا، دورہ پاکستان اور ترکی کے برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کل باضابطہ مذاکرات ہوں گے جبکہ ترک وزیرخارجہ آج رات اسلام آباد پہنچیں گے۔

ترکیہ کے جنگلات میں لگی آگ دوسرے روز بھی نہ بجھائی جاسکی، 50 ہزار افراد کا انخلا

حکام کے مطابق ایک ہزار سے زائد فائر فائٹرز آگ بجھانے کے لیے کوشاں ہیں، رپورٹ
شائع 01 جولائ 2025 01:14pm

ترکیہ کے مغربی صوبے ازمیر میں لگی خوفناک آتشزدگی دوسرے روز بھی نہ بجھائی جاسکی، جس کے باعث 50 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ ازمیر ایئرپورٹ پر پروازیں معطل کر دی گئی ہیں۔

حکام کے مطابق ایک ہزار سے زائد فائر فائٹرز آگ بجھانے کے لیے کوشاں ہیں۔

مقامی انتظامیہ کے مطابق علاقوں سے 50 ہزار افراد کا انخلا کرالیا گیا ہے، آگ سے اب تک 20 گھر تباہ ہوچکے ہیں۔

ترکیہ میں گستاخانہ خاکے پر شدید ردعمل، دو کارٹونسٹ گرفتار

ترک میڈیا کے مطابق ابتدائی آگ اتوار کو سفری حصار اور مندریس کے اضلاع کے درمیان لگی، جسے 117 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہواؤں نے مزید پھیلا دیا۔ بعض علاقوں میں ہیلی کاپٹرز بھی عارضی طور پر گراؤنڈ کر دیے گئے، جس کی وجہ سے صرف 2 واٹر بمبرز اور زمینی ٹیمیں فائر فائٹنگ پر مامور رہیں۔

نیٹو اجلاس: ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے پر زور، ترکیہ اور امریکا میں دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق

ترکیہ کے ساحلی علاقوں کو گزشتہ چند برسوں سے موسم گرما کے دوران شدید آگ کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔

اسحاق ڈار کا ترک وزیرخارجہ سے رابطہ، خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال

دونوں رہنماؤں کے درمیان ملائیشیا میں منعقد ہونے والے آسیان علاقائی فورم پر بھی تبالہ خیال کیا گیا
شائع 29 جون 2025 05:21pm

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، جس میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

ترجمان دفترخارجہ کے مطابق نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فدان کے درمیان اتوار کو ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جس میں دو طرفہ اور کثیرالملکی تعاون سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسحاق ڈار اور ترک وزیر خارجہ کے درمیان ٹیلی فونک رابطے میں حالیہ علاقائی پیش رفت اور 10 تا 11 جولائی کو کوالالمپور، ملائیشیا میں ہونے والے آسیان ریجنل فورم پر بھی بات ہوئی۔

دونوں وزرائے خارجہ نے علاقائی استحکام اور باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

چیئرمین او آئی سی کا منصب 3 سال کے لیے ترکیہ کو مل گیا

اسرائیل خطے میں عدم استحکام کا سبب بن رہا ہے اسرائیلی جارحیت کو روکنا ہوگا ، ترک وزیر خارجہ کا او آئی سی اجلاس سے خطاب
شائع 21 جون 2025 02:15pm
فائل فوٹیج
فائل فوٹیج

اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے دو روزہ اجلاس کے دوران ترکیہ کو تنظیم کی تین سالہ چیئرمین شپ سونپ دی گئی، جبکہ نئے چیئرمین ترک وزیر خارجہ حقان فدان نے افتتاحی خطاب میں ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی اور خطے میں امن کے لیے امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا۔

حقان فدان نے کہا کہ ہم دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اسرائیل اس وقت ایران پر حملہ آور ہے، جبکہ غزہ سے یمن اور لبنان تک جنگ کا سامنا ہے۔ ہمیں اسرائیلی جارحیت کو روکنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا بنیادی سبب بن چکا ہے اور موجودہ بحران امت مسلمہ کے لیے ایک امتحان ہے۔ حقان فدان نے اجلاس کو ایران-اسرائیل کشیدگی پر غور کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں اختلافات بھلا کر متحد ہونا ہوگا۔

اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوان بھی خطاب کریں گے جبکہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی شرکت اور اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔

پاکستان کی نمائندگی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کر رہے ہیں، جو اجلاس میں پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے۔

اجلاس کے اعلامیے میں او آئی سی کی جانب سے ایران اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ فوری طور پر ختم ہونی چاہیے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کا پائیدار حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔

پاک ترک وزرائے خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ، ایران پر اسرائیلی حملے پر غم و غصے کا اظہار

پاک دونوں رہنماؤں نے ایران پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا، ترجمان
شائع 15 جون 2025 07:22pm

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ترکیہ کے وزیر خارجہ نے ٹیلی فونک رابطہ کیا، دونوں وزرائے خارجہ کی جانب سے ایران پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں خطے کی بگڑی صورت حال پر تشویش اور غم و غصے کا اظہار کیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو ترکیے کے وزیرخارجہ حقان فیدان نے ٹیلی فون کیا اور دوران گفتگو دونوں رہنماؤں نے ایران پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

ترجمان دفترخارجہ نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے ایران پر اسرائیلی کے بلاجواز حملوں کے باعث بگڑتی علاقائی صورت حال پر گہری تشویش اورغم وغصے کا اظہار کیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم اسحاق ڈارنے اگلے ہفتےہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس اور صدر رجب طیب اردوان کے اعزاز میں اسلامی تعاون یوتھ فورم کی تقریب میں شرکت کی تصدیق کی، یہ دونوں اجلاس اگلے ہفتے استنبول میں ہوں گے۔

قبل ازیں گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا اور دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کے حملے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

یاد رہے کہ اسرائیلی حکومت نے 13 جون کی علی الصبح تہران کے متعدد رہائشی علاقوں اور ایران کے دیگر حصوں میں واقع عسکری و جوہری مراکز پر حملے کیے تھے۔

ان حملوں میں کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز، کم از کم چھ ایرانی جوہری سائنسدان، اور درجنوں عام شہری شہید ہو چکے ہیں۔

ایرانی مسلح افواج نے ان حملوں کے جواب میں اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے کئی شہروں پر تباہ کن بیلسٹک میزائلوں سے جوابی کارروائی کی ہے۔

وزیراعظم کا ترکیہ کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ، اہم فیصلوں پر عملدر آمد پر اتفاق

شہباز شریف نے رابطے کے دوران رجب طیب اردوان اور ترک عوام کو عید کی مبارکباد نیک خواہشات کا اظہار کیا
شائع 08 جون 2025 05:32pm

وزیراعظم شہبازشریف نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے عیدالاضحی کی مبارکباد دی، دونوں رہنمائوں نے اہم فیصلوں پر عملدرآمد پر اتفاق بھی کیا۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور عید الاضحی کے پر مسرت موقع پر ترک صدر کو اور ترکی کے برادر عوام کو عید کی مبارکباد اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

ٹیلی فونک گفتگو کے دوران وزیراعظم نے پاک بھارت بحران کے دوران ترکیہ کی جانب سے پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل حمایت پر صدر اردوان کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس اقدام نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے اور پاک ترک بھائی چارے کی تاریخ میں ایک اور شاندار باب کا اضافہ کیا۔

وزیراعظم کا عمان کے سلطان کو فون، دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور

دونوں رہنماؤں نے گزشتہ ملاقاتوں کے دوران کیے گئے اہم فیصلوں پر تیزی سے عملدرآمد پر بھی اتفاق کیا، اس سے دوطرفہ تعاون بالخصوص تجارت اور سرمایہ کاری میں تیزی لانے میں مدد ملے گی۔

دونوں رہنماؤں نے بنیادی مفادات پر ایک دوسرے کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا جبکہ انہوں نے غزہ کی صورتحال سمیت تازہ ترین علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

ترکیہ کے صدر نے عید الاضحیٰ کے موقع پر نیک خواہشات کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا اور پاکستانی عوام کے لیے بھی خیر خواہی کے جذبات کا اظہار کیا۔

رجب طیب اردوان نے تمام اہم معاملات میں پاکستان کے لیے ترکیہ کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔

خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان نے کابینہ سے خطاب میں پاکستانی قوم کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

ترک صدر کا وزیراعظم سے رابطہ، بھارتی حملے کے بعد پاکستان سے یکجہتی کا اعادہ

رجب طیب اردوان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی پر خوشی ہے جب کہ پانی سمیت تمام مسائل کے آسان حل کے خواہاں ہیں۔

پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد سے ترکی کی خفیہ ایجنسی کا اہم کامیاب آپریشن، داعش کا سینیئر ترک رہنما گرفتار

'ترکیہ کا دشمن، پاکستان کا بھی دشمن ہے'، مدد کی درخواست پر پاکستان کا جواب
شائع 01 جون 2025 03:00pm

ترک میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکیہ کی خفیہ ایجنسی ”ملی استخبارات تنظیمی“ (ایم آئی ٹی) نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ساتھ مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کی ”نارنجی“ (Orange) فہرست میں شامل انتہائی مطلوب داعش کمانڈر ”ابو یاسر الترکی“ کو گرفتار کر لیا ہے، جو ”اوغزور التون“ کے نام سے مشہور ہے۔

ترک سکیورٹی ذرائع کے مطابق، ایم آئی ٹی کی جانب سے کی گئی خفیہ تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا کہ اوغزور التون ایک ترک نژاد شدت پسند ہے جو افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں داعش کے لیے سرگرم تھا۔ وہ یورپ اور وسطی ایشیا سے شدت پسند عناصر کو افغان-پاک خطے میں منتقل کرنے، میڈیا پروپیگنڈا چلانے اور داعش کی کارروائیوں کی نگرانی میں ملوث تھا۔ اس نے ترکی اور یورپ میں کنسرٹ جیسے عوامی اجتماعات پر حملوں کی منصوبہ بندی کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔

پاکستان کے خلاف پانی کو ہتھیار نہ بناؤ: چینی تجزیہ کار کی بھارت کو کھلی وارننگ

اوغزور التون کو داعش کے اندر ”سب سے اہم ترک میڈیا آپریٹو“ قرار دیا گیا ہے، جو ترک اور انگریزی زبان میں شدت پسند مواد تیار کرتا رہا اور داعش کی بھرتی، مالی معاونت اور لاجسٹک سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہا۔

ترک میڈیا کے مطابق ایم آئی ٹی کو اطلاع ملی تھی کہ ابو یاسر غیر قانونی طور پر ترکیہ سے افغانستان منتقل ہوا اور وہاں سے پاکستان جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس اطلاع پر ایم آئی ٹی نے آئی ایس آئی کو آگاہ کیا، جس پر پاکستانی ادارے نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ترکیہ کا دشمن، پاکستان کا بھی دشمن ہے۔

بلوچستان میں تمام دہشت گرد تنظیموں کو فتنہ الہندوستان کا نام دے دیا گیا

اس معلومات کی بنیاد پر ایم آئی ٹی اور آئی ایس آئی نے پاکستان-افغانستان سرحد کے قریب مشترکہ ٹارگٹڈ کارروائی کی، جس میں ابو یاسر کو گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں اسے ترکیہ کے حوالے کر دیا گیا۔

گرفتاری کے بعد اپنی ابتدائی تفتیش میں اوغزور التون نے اعتراف کیا کہ وہ افغانستان-پاکستان خطے میں شدت پسندوں کی منتقلی کا نگران تھا، داعش کی میڈیا ٹیم کا سینیئر رکن تھا اور دنیا بھر میں دہشت گردی پر اکسانے کے لیے پروپیگنڈا مہمات چلا رہا تھا۔

ترکیہ کی دکان میں بھارتی جھنڈا نہ ہونے پر گالم گلوچ کرنے والا انڈین یوٹیوبر گرفتار

ترک خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس کامیاب کارروائی کے نتیجے میں داعش کی ترکیہ میں ممکنہ دہشت گرد کارروائیوں کو ناکام بنایا گیا، تنظیم کے متعدد منصوبے بے نقاب ہوئے، اور دہشت گردوں کے زیر استعمال اہم ڈیجیٹل مواد بھی برآمد کیا گیا ہے۔