Aaj News

منگل, اپريل 23, 2024  
14 Shawwal 1445  

اسرائیل کا مسجد الاقصیٰ پر حملہ، 400 فلسطینی عبادت گزار گرفتار

عرب لیگ نے اجلاس طلب کرلیا
اپ ڈیٹ 05 اپريل 2023 08:25pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ رائٹرز
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ رائٹرز

فلسطین میں اسرائیلی پولیس نے مسجد الاقصیٰ میں درجنوں نمازیوں پر حملہ کردیا۔

اسرائیلی پولیس کے اہلکاروں نے ہینڈ گرینیڈ بھی پھینکے جبکہ مسجد میں اسرائیلی پولیس کے داخلے پر فلسطینی شہری مشتعل ہوگئے۔

فلسطینیوں اور اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس میں متعدد فلسطینی زخمی ہوگئے۔

دوسری جانب حماس نے مغربی کنارے میں موجود فلسطینیوں سے مسجد الاقصٰی پہنچنے کی اپیل کردی۔

جس کے بعد فلسطینی خواتین اور بچوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد مسجد اقصیٰ پہنچ گئی۔

اسرائیلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں یہ اقدام ڈنڈوں اور پتھر اٹھائے مشتعل افراد کے کمپاؤنڈ میں داخل ہونے پر کیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پولیس نے حملے کو فسادات کا جواب قرار دیا ہے۔

اسرائیل نے غزہ سے کئی راکٹ فائر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق ایک فلسطینی بزرگ خاتون نے بتایا کہ وہ قرآن شریف کی تلاوت کر رہی تھی اس دوران اسرائیلی پولیس اندر گھس آئی اور گرینیڈ پھینکے، ان میں سے ایک میرے سینے پر لگا، خاتون کو سانس لینے میں شدید دشواری پیش آ رہی تھی۔

 مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی پولیس کے چھاپے کے بعد ایک فلسطینی نمازی ملبہ جھاڑو لگا رہا ہے (تصویر: محمود الیان/اے پی)
مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی پولیس کے چھاپے کے بعد ایک فلسطینی نمازی ملبہ جھاڑو لگا رہا ہے (تصویر: محمود الیان/اے پی)

دوسری جانب عرب لیگ یروشلم میں مسجد الاقصیٰ پر اسرائیلی پولیس کے چھاپے کے حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنے والی ہے۔

عرب لیگ کا اجلاس اردن، مصر اور فلسطینی حکام کی طرف سے بلایا گیا تھا، یروشلم میں اس وقت کشیدگی برقرار ہے۔

عرب لیگ نے اس حملے کی مذمت کی ہے، سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اسرائیلی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسی اور رویے کو ختم نہ کیا گیا تو یہ فلسطینیوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر تصادم کا باعث بنے گی۔“

فلسطینی حکام کے مطابق بدھ کے روز کم از کم 400 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا اور وہ اسرائیلی حراست میں ہیں۔ انہیں مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اٹاروٹ کے ایک پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے۔

فلسطینی عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فورسز نے طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جس میں اسٹن گرینیڈ اور آنسو گیس بھی شامل تھی، جس سے نمازیوں کا دم گھٹنے لگا اور کئی زخمی بھی ہوئے۔ اسرائیلی فورسز کےب اہلکاروں نے نمازیوں کو لاٹھیوں اور رائفلوں سے مارا پیٹا۔

حراست میں لیے گئے ایک 24 سالہ طالب علم بکر اویس نے کہا کہ، ”ہم اقصیٰ میں اعتکاف کر رہے تھے کیونکہ یہ رمضان ہے۔ فوج نے مسجد کی اوپری کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے اور ہم پر سٹن گرنیڈ پھینکنا شروع کر دیے … انہوں نے ہمیں زمین پر لٹا دیا اور ایک ایک کر کے ہمارے ہاتھ باندھ کر باہر لے گئے۔ اس دوران وہ ہم سے بدتمیزی کرتے رہے۔ یہ بہت وحشیانہ تھا۔“

فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ زخمیوں میں سے تین کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

تنظیم نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ اسرائیلی فورسز نے اس کے ڈاکٹرز کو الاقصیٰ جانے نہیں دیا۔

مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں پہلے ہی کئی مہینوں سے کشیدگی عروج پر ہے۔ اہم مذہبی تہواروں جیسے کہ رمضان المبارک اور یہودیوں کے پاس اوور کے ایک ساتھ آنے سے مزید تشدد کے خدشات ہیں۔

الجزیرہ کی نمائندہ نتاشا غونیم نے کہا کہ ان حملوں کا اندیشہ پہلے ہی تھا کیونکہ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ الاقصیٰ آئیں اور ”قابضین سے اس کا دفاع کریں“۔

توقع کی جاتی ہے کہ غیر مسلموں کے اوقات میں متعدد یہودی مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ کریں گے۔

غونیم نے مقبوضہ مشرقی یروشلم سے رپورٹ کیا کہ ”جو لوگ عام طور پر یہاں آتے ہیں وہ انتہائی قدامت پسند نظریہ کے حامل قوم پرست ہوتے ہیں اور اگرچہ یہودیوں کو احاطے کے اندر عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن ان کی محض موجودگی ایک حساس موضوع ہے۔“

فلسطینی گروپوں نے نمازیوں پر تازہ ترین حملوں کی مذمت کی ہے اور اس انہوں نے جرم قرار دیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد شتیہ نے ایک بیان میں کہا کہ یروشلم میں جو کچھ ہوا وہ عبادت گزاروں کے خلاف ایک بڑا جرم ہے۔ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا اسرائیلی قبضے کی اجازت سے مشروط نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارا حق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ الاقصیٰ فلسطینیوں، تمام عربوں اور مسلمانوں کے لیے ہے اور اس پر حملہ قبضے کے خلاف انقلاب کی چنگاری ہے۔

اردن، جو کہ 1967 کی جنگ کے بعد سے ایک جمود کے انتظام کے تحت یروشلم کے عیسائی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کے نگہبان کے طور پر کام کرتا ہے، نے اسرائیل کی طرف سے کمپاؤنڈ پر ”پرتشدد“ حملے کی مذمت کی۔

دریں اثنا، مصر کی وزارت خارجہ نے الاقصیٰ کے عبادت گزاروں پر اسرائیل کی جانب سے ”شدید حملے“ کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

’بے مثال جرم‘

الاقصیٰ جو اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام اور یہودیت (جس میں اسے ٹمپل ماؤنٹ کہا جاتا ہے) کا سب سے مقدس مقام ہے، نے ماضی میں اسرائیل اور غزہ کے حماس کے حکمرانوں کے درمیان سرحد پار سے مہلک جنگوں کو جنم دیا ہے۔ جو آخری بار 2021 میں ہوئے تھے۔

حماس نے تازہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”بے مثال جرم“ قرار دیا اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ”مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے اجتماعی طور پر جائیں“۔

الاقصیٰ پر حملے کے بعد شمالی غزہ سے اسرائیل کی جانب کئی راکٹ فائر کیے گئے۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ پانچ راکٹوں کو فضائی دفاعی نظام نے جنوبی اسرائیل کے شہر سڈروٹ کے ارد گرد روکا اور چار دیگر غیر آباد علاقوں میں گرے۔

غزہ میں الجزیرہ کے مرم حمید کے مطابق، اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں متعدد مقامات پر حملے کیے، اور شہر کے مغرب میں ایک ”فوجی مقام“ اور پٹی کے وسط میں نوصیرات پناہ گزین کیمپ کے ایک مقام کو نشانہ بنایا۔

غزہ میں درجنوں مظاہرین رات بھر سڑکوں پر نکلے نظر آءے اور ٹائر جلائے گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ”ہم مسجد اقصیٰ کے دفاع اور حفاظت کی قسم کھاتے ہیں۔“

فلسطینی الاقصیٰ کو ان چند قومی علامتوں میں سے ایک کے طور پر دیکھتے ہیں جن پر ان کا کنٹرول کا کچھ عنصر برقرار ہے۔ تاہم، وہ یہودی گروہوں کی جانب سے ہونے والی آہستہ آہستہ تجاوزات سے خوفزدہ ہیں جیسا کہ ہیبرون میں ابراہیمی مسجد (صاحبوں کی غار) میں ہوا ہے، جہاں 1967 کے بعد مسجد کا نصف حصہ عبادت گاہ میں تبدیل ہو گیا تھا۔

فلسطینی انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی تحریکوں سے بھی پریشان ہیں جو مسجد اقصیٰ کے احاطے میں موجود اسلامی ڈھانچے کو منہدم کر کے ان کی جگہ یہودی مندر بنانا چاہتے ہیں۔

Israel

Palestine

Gaza

Al Aqsa mosque

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div