Aaj News

ہفتہ, اپريل 27, 2024  
18 Shawwal 1445  

حکومت کی رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تیاری

حکومت کا سبسڈیز اور گرانٹس پر بھی نظر ثانی کرنے کا عندیہ
شائع 29 ستمبر 2023 11:36am
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

وفاقی حکومت نے اقتصادی بحالی کے منصوبے کے تحت منقولہ اثاثوں پر ویلتھ ٹیکس کے ساتھ ریٹیل، زراعت اور رئیل اسٹیٹ کے ٹیکس پر نظر ثانی کا عندیہ دے دیا۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور ستمبر 2023 کے آؤٹ لک کے مطابق معاشی بحالی کے تحت اہم اقدامات میں آمدنی میں اضافے کی حکمت عملی شامل ہے جس میں خوردہ، زراعت اور رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں میں ٹیکس میں ترمیم کے ساتھ ساتھ منقولہ اثاثوں پر ویلتھ ٹیکس بھی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق اربوں روپے کا ٹیکس استثنیٰ صرف خوراک اور ادویات جیسے ضروری شعبوں تک محدود رہے گی جب کہ حکومتی اخراجات کو معقول بنانے کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات کے ساتھ ساتھ سبسڈیز اور گرانٹس پر نظر ثانی بھی کی جائے گی۔

وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت ترقیاتی منصوبے کا بھی جائزہ لے گی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے منصوبوں پر زور دے گی، اس کے علاوہ سہ ماہی بجٹ اہداف اور آئی ایم ایف معاہدوں بشمول ٹیکس وصولی اور قرضوں کے واجبات کی تعمیل پر بھی زور دیا جائے گا۔

مزید برآں، مجوزہ منصوبے کے تحت حکومت 5 ای فریم ورک بشمول برآمدات، ایکویٹی، بااختیاری، ماحولیات اور توانائی پر بھی توجہ مرکوز کرے گی تاکہ سماجی و اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔

فنانس ڈویژن کے مطابق معیشت کو ڈیجیٹائز کرنے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نجکاری کمیشن مختلف طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے منتخب سرکاری شعبے و اداروں کی نجکاری کرے گا۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت مجوزہ منصوبے کے تحت کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی کرے گی تاکہ نان بینک فنانس کو بہتر اور کیپٹل مارکیٹ کو فروغ دیا جاسکے۔

برآمدات میں اضافے کے لیے گیس کی اوسط لاگت (واکوگ) کا نفاذ، ایگزم بینک کو آپریشنل کرنا اور سیلز ٹیکس ریفنڈ کی فوری کلیئرنس ترجیحی قلیل مدتی اقدامات ہیں۔

رپورٹ کے مطابق آئی ٹی کی برآمدات کو تربیت، اسٹارٹ اپ پاکستان پروگرام اور پالیسی مداخلت کے ذریعے فروغ دیا جائے گا۔ ٹیلی کمیونیکیشن میں اصلاحات کا مقصد ترقی کو فروغ دینا اور فائیو جی ٹیکنالوجی متعارف کرانا ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق میری ٹائم افیئرز کے اقدامات میں فریٹ چارجز کو کم کرنا، جہازوں کی ری سائیکلنگ میں اضافہ، پورٹ ماسٹر پلان تیار کرنا اور ماہی گیری کے شعبے کی بحالی شامل ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان ریلوے گورننس، نجی شعبے کی شراکت داری، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن پر توجہ دے گا جب کہ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے) وسائل کی تنظیم نو، دیکھ بھال اور آپٹمائزیشن پر توجہ مرکوز کرے گی اور نجی شعبے کی فنانسنگ حاصل کرے گی۔

فنانس ڈویژن کے مطابق حالیہ انتظامی اقدامات کا مقصد اشیائے ضروریہ کی دستیابی کو بہتر بنانا اور رسد کی رکاوٹوں میں متوقع کمی سے افراط زر کے منظر نامے میں بہتری آئی ہے۔

بیرونی محاذ پر، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور مربوط اشارے اگست میں کچھ پیش رفت دکھا رہے ہیں، اسی طرح مالی سال 2024 کے آغاز پر بھی مالی کارکردگی تسلی بخش رہی۔

توقع ہے کہ اقتصادی بحالی کا منصوبہ اور دانشمندانہ اقدامات اور دیگر پالیسیاں نئی سرمایہ کاری کو راغب کریں گی تاکہ مالی سال 2024 اور درمیانی مدت میں اعلیٰو جامع معاشی ترقی کے لئے معیشت کو بہتر کرسکے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2024 کے آغاز سے اب تک پاکستان کی معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔ اگست مالی سال 2024ء میں ماہانہ برآمدات میں 14.2 فیصد جبکہ اسی عرصے کے دوران درآمدات میں 2.1 فیصد اضافہ ہوا۔

حکام کے مطابق درآمدی پابندیوں کے خاتمے کے ذریعے بہتر ان پٹ صورتحال نے شعبہ جاتی ترقی کی راہ ہموار کی۔ تاہم، متعدد شعبے اب بھی دباؤ میں ہیں کیونکہ سخت فنانسنگ سہولیات اور افراط زر کا دباؤ ان کی پیداواری سرگرمیوں میں مسلسل رکاوٹ ہے۔

سی پی آئی افراط زر اگست 2023 میں سال بہ سال کی بنیاد پر 27.4 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ اگست 2022 میں یہ 27.3 فیصد تھا۔ ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر اگست 2023 میں یہ بڑھ کر 1.7 فیصد ہوگئی جبکہ اس سے پچھلے مہینے میں یہ 3.5 فیصد زیادہ تھی۔

اجناس کی ذخیرہ اندوزی کو روکنے کے لئے حکومت کے سخت انتظامی اقدامات اور غیر ملکی کرنسی کے اقدامات کے نتیجے میں افراط زر کے دباؤ کو کم کیا گیا۔ تاہم، بین الاقوامی تیل کی قیمتوں کے دباؤ اور توانائی کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کو دیکھتے ہوئے افراط زر میں غیر یقینی صورتحال برقرار رہے گی۔

مالی سال 2024 ء میں جولائی 2024ء میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 0.2 فیصد رہا جو گزشتہ سال کی سطح پر تھا جبکہ پرائمری بیلنس سرپلس گزشتہ سال کے 142.2 ارب روپے سے بہتر ہو کر 311.2 ارب روپے ہو گیا۔

دوسری جانب نئے ٹیکس اقدامات اور درآمدات سے متعلق ٹیکسوں سے وصولی میں اضافے نے ٹیکس وصولی میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا۔ اخراجات میں اگرچہ مارک اپ ادائیگیوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا جبکہ نان مارک اپ اخراجات میں 48 فیصد کمی آئی۔

فنانس ڈویژن کے مطابق حالیہ انتظامی اقدامات کا مقصد اشیائے ضروریہ کی دستیابی کو بہتر بنانا اور رسد کی رکاوٹوں میں متوقع کمی سے افراط زر کے منظر نامے میں بہتری آئی ہے۔

tax

Exports

Income Tax

Ministry of Finance

real estate

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div