لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر مؤثر بنانے کیلئے تھا، چیف جسٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ بار کی نظرثانی اپیلوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور پیپلزپارٹی نے نظرثانی اپیل کی حمایت کردی جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل نے سپریم کورٹ کے نئے بینچ کی تشکیل پر اعتراض عائد کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، جب آئین میں لکھ دیا گیا نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو اسی پر عمل ہونا چاہیئیے، آج کل سب کومعلوم ہے سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے، کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہورہا، جسٹس منصور کا انتظار کیا مگر ان کے انکار کے بعد ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر سماعت سماعت کی۔جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل ہیں۔
گزشتہ روز سماعت پر جسٹس منیب اختر نے لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا، جسٹس منیب اختر کے انکار کے بعد ججز کمیٹی نے منگل کو نیا بینچ تشکیل دیا جبکہ جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کیا گیا۔
آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ
آج کی سماعت سے متعلق چیف جسٹس کے تحریر کردہ حکمنامے میں کہا گیا کہ نظر ثانی درخواست 3 دن کی تاخیر سے دائر ہوئی جس پر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا، درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ موجود نہ ہونے پر نظر ثانی تاخیر سے دائر ہوئی۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ رجسڑار آفس معلوم کرے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا، جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، دوبارہ درخواست پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھا، رجسڑار معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا، ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایاگیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ دوران سماعت کچھ سوالات سامنے ائے، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے، فریقین برطانیہ، امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے اگاہ کریں، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے ہماری حاضری لگا لیں۔
پی ٹی آئی کا نئے بینچ کی تشکیل پر اعتراض
سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو بعد میں سنیں گے ابھی آپ بیٹھ جائیں، جس پر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں بینچ کی تشکیل نو پر اعتراض ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوبارہ کہا کہ آپ سے کہا ہے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے، ہم چیزوں کو اچھے انداز میں چلانا چاہتے ہیں آپ بیٹھ جائیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جو ہوا ہے، وہ کورٹ میں بتادوں، کل جسٹس منیب اختر کو خط لکھا، اُنہوں نے وہ پوزیشن برقرار رکھی، میں نے جسٹس منصورعلی شاہ کو کمیٹی میں بلایا، وہ نہیں آئے، ان کے سیکرٹری سے رابطہ کیا تو اُن کے اسٹاف نے اُن سے رابطہ کیا، اسٹاف نے بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، میں نہیں چاہتا دوسرے بینچز کو ڈسٹرب کیا جائے، نعیم افغان کو نئے لارجر بینچ میں شامل کرلیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے آج کے اجلاس کے منٹس جاری کیے، کمیٹی کے منٹس سپریم کورٹ ویب سائٹ پربھی اپ لوڈ کردیے گئے ہیں۔
آج کل سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا، چیف جسٹس
انہوں نے مزید کہا کہ آج کل سب کومعلوم ہے سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے، آج کل سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہورہا، اب لارجر بینچ مکمل ہے کارروائی شروع کی جائے۔
سپریم کورٹ بار کے وکیل اور صدر شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی، 21 مارچ کو 4 سوالات پر مبنی صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ کیا ریفرنس اور آپ کی درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جاسکتا تھا؟، جس پر سپریم کورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ 27 مارچ اس وقت کے وزیراعظم نے ایک ریلی نکالی، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاسی معاملات پر بات نہ کریں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک آئی، 21 مارچ 2022 کو پی ٹی آئی حکومت میں صدر مملکت نے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا، ہماری درخواست آرٹیکل 184ـ3 کے تحت دائر ہوئی صدر مملکت نے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 184/3 کی درخواستیں بھی تھیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس پر رائے اور 184/3 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کرکے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟ صدراتی ریفرنس پر صرف رائے دی جاسکتی ہے، فیصلہ نہیں دیا جاسکتا، کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے، صدراتی ریفرنس پر دی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہوسکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں سرپراٸز ہوں کہ کیسے دو حدود ایک ساتھ کلب کی گٸیں، اس وقت پی ٹی آٸی کی جانب سے درخواست دی گٸی، اس وقت حکومت کس کی تھی؟
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سپریم کورٹ بار کے وکیل شہزاد شوکت سے استفسار کیا کہ اس وقت صدر پاکستان کون تھا؟ جس پر شہزاد شوکت نے بتایا کہ اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184 کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے، وہی حکومت بطورِ حکومت بھی اس کیس میں درخواست گزار تھی۔
صدر سپریم کورٹ بار نے پوچھا کہ ریفرنس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا، سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے کر آئین میں نئے الفاظ شامل کیے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک طرف رائے دی گئی کہ منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا، چیف جسٹس کی رائے میں کہاں کہا گیا کہ ڈی سیٹ ہوگا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی سیٹ کرنا ہے یا نہیں یہ تو پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کو فیصلہ کرنا ہے۔
شہزاد شوکت نے آرٹیکل 63 اے پڑھ کر سنا دیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ صدر کی جانب سے قانونی سوالات کیا اٹھائے گئے تھے؟ جس پر وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ صدر پاکستان نے ریفرنس میں 4 سوالات اٹھائے تھے، آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی، عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے کو اکیلا کرکے نہیں دیکھا جا سکتا، عدالت نے قراردیا کہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے اہم ہیں، عدالت نے قراردیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر ہے۔
جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فیصلے میں منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا بھی لکھا گیا؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ نہیں ہوگا ڈی سیٹ کرنے کا حکم فیصلے میں نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ آئین میں تحریک عدم اعتماد، وزیراعظم اور وزیراعلی کا انتخاب اور منی بل کی وضاحت موجود ہے، جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟ شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا؟ سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جا سکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔
آخری جملے پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کے لیے کینسر کا لفظ لکھا گیا، یہ لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا؟ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے؟ آپ کو اعتراض اقلیتی فیصلے پر ہے یا اکثریتی فیصلے پر؟ جس پر صدرسپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔
فیصلے میں کہاں لکھا ہے ووٹ کاؤنٹ نہ ہونے پر رکن نااہل ہوگا؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر بندہ نااہل ہوگا؟ یہ فیصلہ تو معاملے کو پارٹی سربراہ پر چھوڑ رہا ہے پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ چاہے تو اسے نااہل کردے، پارٹی سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی ناں تو کیا ہوگا؟ اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ دینے اور کاؤنٹ نہ ہونے پر فوری نااہلی ہوگی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں فیصلے میں ایسا نہیں کہا گیا۔
عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا، چیف جسٹس
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد میں اگرووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جا سکتا، یعنی آرٹیکل 95 توغیرفعال ہوگیا۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟ جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ووٹنگ کروائی ہی اس لیے جاتی کہ اسے گنا بھی جائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا عدالت نے فیصلے میں آرٹیکل 95 پر کچھ کہا، کسی جماعت کا رکن پارٹی سربراہ کو پسند نہ کریں اور ہٹنا چاہیں تو کیا کیا جائے گا، اگر اراکین کا ووٹ تک گنا ہی نہیں جاسکتا تو کیا کیا جائےگا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کا ایک حوالہ اقلیتی فیصلے میں موجود ہے، بلوچستان میں ایک مرتبہ اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف اس کے اراکین تحریک عدم اعتماد لائے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ برطانیہ میں حال ہی میں ایک ہی جماعت نے اپنے وزیراعظم تبدیل کیے، اس دوران جماعت نے ہاؤس میں اکثریت بھی نہیں کھوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ دیکھیں کیا ہوا؟ پارٹی کی حکمرانی برقرار رہی لیکن وزیراعظم تبدیل وگیا، یہ عدالتی فیصلہ تو لگتا ہے عدم اعتماد کی تحریک کو غیر مؤثر بنانے کے لیے تھا۔
کسی کے ضمیر کا معاملہ طےکرنا مشکل ہے، چیف جسٹس
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا انحراف کرپٹ پریکٹس جیسا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے ضمیر کا معاملہ طےکرنا مشکل ہے، کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کو متاثر نہیں کرتا، کیا پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے جیسا نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ضمیر کے معاملات کے فیصلے کرنا مشکل، حقائق پر فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے، کیا آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ آئین کے آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف نہیں؟
شہزاد شوکت نے کہا کہ جی بالکل یہ فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کے برخلاف ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ضمیر کا فیصلہ کون کرے گا؟ لوگوں کے ضمیر میں کون جھانکے گا؟ کیا جو روز پارٹی تبدیل کرتے ہیں وہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہیں یا بے ایمان ہیں، اس کا فیصلہ کون کرے گا، ہم بطور جج کیسے فیصلہ کریں کہ ایک بندہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے یا نہیں، ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنے والے۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں رضا ربانی کا حوالہ بھی دیا گیا کہ انہوں نے ضمیر کے خلاف جاکر پارٹی کو ووٹ دیا، کس جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ فیصلے سے اختلاف کرنے والاجج بھی باضمیرہوگایا نہیں، ہم کون ہوتے ہیں کہنے والے کہ تم باضمیر نہیں ہو۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی سربراہ الگ الگ ہدایات دیں تو کیا ہوگا، ایسے میں تعین کیسے کیا جاسکتا ہے کہ کس کی ہدایات ماننا ضمیر کی آواز ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62/1 ایف پر جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، فیصلے میں وضاحت موجود ہےکہ نااہلی سے متعلق کون سی شقیں ازخود نافذ ہوتی ہیں اور کون سی نہیں، امریکی آئین میں انحراف سے متعلق کیا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے جواب دیا کہ وہاں اراکین ووٹنگ کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ امریکا میں انحراف کی سزا نہیں جب کہ فیصلے میں تو امریکی سپریم کورٹ کے حوالے دیے گئے ہیں۔
شہزاد شوکت نے استدعا کی کہ ہماری گزارش ہےکہ فیصلے کو واپس لیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا بتائیں فیصلے میں کیا غلط ہے، انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے جیسا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ صرف یہ نہیں کہتاکہ آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا، فیصلہ کہتا ہے کہ پارٹی کہے تو ووٹ لازمی کرنا ہے، پارٹی کے کہنے پر ووٹ نہ کرنے پر رکن کے خلاف کاروائی کا کہا گیا ہے، نظرثانی درخواست کب دائر ہوئی۔
شہزاد شوکت نے بتایا کہ 2022 میں نظرثانی درخواست دائر کی، چیف جسٹس نے کہا کہ عابد زبیری بھی جب صدر سپریم کورٹ بار بنے تو اپیل واپس نہیں لی، سپریم کورٹ بار کے دونوں گروپ نظرثانی درخواست پر قائم رہے، چلیں تسلی ہوئی کہ نظرثانی بار سیاست کی وجہ سے نہیں تھی۔ شہزاد شوکت نے جواب دیا کہ نظرثانی خالصتاً آئینی مسئلہ ہی تھا۔
وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی نظرثانی اپیل کی حمایت
وفاقی حکومت اور پیپلزپارٹی نے نظرثانی اپیل کیی حمایت کردی کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ نظرثانی کی مخالف کون کررہا ہے؟
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو دیا کہ بانی پی ٹی آئی کا وکیل ہوں لیکن نوٹس تاحال موصول نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ویسے بتادیں آپ نظر ثانی کے حامی ہیں یا مخالف ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نظر ثانی کی مخالفت کروں گا، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ووٹ نہ گنا جانا آئین میں نہیں لکھا، اگر ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا تو مطلب ہے میں نے کچھ غلط نہیں کیا، انحراف کا اطلاق تب ہوگا جب ووٹ گنا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصلے میں جن ملکوں کے فیصلوں کا حوالہ ہے ان ممالک میں انحراف کی سزا کا بھی بتائیں، فریقین یہ بھی بتائیں کیا صدارتی ریفرنس اور 184/3 کی درخواستوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ ہے وہاں کی صورتحال بتائیں، نظر ثانی منظور ہونا یہ نہیں ہوتا کہ فیصلہ غلط ہے، وجوہات غلط ہوتی ہیں، نظرثانی کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے، آپ فیصلے کا نتیجہ نہیں صرف وجوہات دیکھ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت ملتوی کردیتے ہیں، جو وکلا رہ گئے ہیں، ان کے دلائل کل سنیں گے۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
گزشتہ سماعت کا احوال
گزشتہ روز آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم کمرہ عدالت پہنچے تاہم جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔
بینچ میں شامل سینئر جج جسٹس منیب اختر نے گزشتہ روز بینچ میں شمولیت سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری معذرت کو کیس سننے سے انکار نہ سمجھا جائے۔
گزشتہ روز سماعت جسٹس منیب اختر کی عدم شرکت پر ملتوی کردی گئی تھی تاہم جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو بینچ میں شمولیت سے انکار کرتے ہوئے 2 خط لکھے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کو منانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں راضی کریں گے۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کو 23 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
واضح رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔
اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔
بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔
اس معاملے پر مختلف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔
آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔
فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔