اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت، عدالت کا ایکٹ پر عملدرآمد روکنے سے گریز
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی پیکا قانون کے خلاف دائر درخواست پر سماعت جاری ہے۔ سماعت جسٹس انعام امین منہاس کر رہے ہیں، جبکہ پی ایف یو جے کی جانب سے وکیل عمران شفیق عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران شفیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیکا کا قانون اتنی عجلت میں بنایا گیا کہ اس کی شقوں کے نمبر بھی درست درج نہیں کیے گئے۔ قانون میں اس قدر خامیاں ہیں کہ درخواست دہندہ کی دو مختلف تعریفیں کر دی گئیں، جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی تبدیل کرنے کیخلاف پانچ ججز کی ریپریزنٹیشن مسترد
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیکا قانون کے تحت بنائی گئی کمپلینٹ اتھارٹی وہی ہے جو پہلے سے پیمرا قانون میں موجود ہے، جبکہ اس قانون کے تحت ٹریبیونل حکومت خود قائم کرے گی، حالانکہ قانونی ضابطے کے مطابق کسی بھی ٹریبیونل کے قیام سے قبل متعلقہ ہائیکورٹ سے مشاورت لازمی ہوتی ہے۔
عمران شفیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آئین کے مطابق میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یا ٹریبیونل آزاد اور خودمختار ہونا چاہیے، لیکن پیکا قانون کے تحت یہ تمام معاملات حکومتی ماتحتی میں آجاتے ہیں۔ انہوں نے فیک نیوز کی تعریف کو بھی غیر واضح اور کمزور قرار دیا اور مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص وٹس ایپ گروپ میں مزاحیہ انداز میں دوسری شادی کا ذکر کرے تو اس کے خلاف بھی پیکا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔
مردان میں پیکا قانون کے تحت پہلا مقدمہ درج، زاہد نامی شہری نامزد
پیکا ایکٹ
یاد رہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے 29 جنوری کو دستخط کیے جانے کے بعد ’دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025‘ (پیکا) کا قانون نافذ العمل ہوگیا تھا۔
مذکورہ بل کو 22 جنوری کو قومی اسمبلی اور بعد ازاں سینیٹ نے منظور کیا تھا، جس کے بعد صدر نے بھی اس کی توثیق کردی تھی۔
نئے قانون کے تحت وفاقی حکومت سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے ملک میں پہلی بار ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ (سمپرا) بھی قائم کرے گی۔
مذکورہ اتھارٹی ملک میں اپنی طرز کی پہلی خود مختار اتھارٹی ہوگی، جس سے ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام سوشل میڈیا ایپس اور ویب سائٹس سمیت اسٹریمنگ چینلز کی رجسٹریشن بھی ہوگی۔
پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں سماعت، فریقین سے جواب طلب
قانون کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی، جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار وکلا نے عدالت سے بار بار استدعا کی کہ اس ایکٹ پر عمل درآمد روکا جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو بتایا جائے، ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم متفرق درخواست بھی دائر کر سکتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر درخواست میں قانون کی شقوں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے تو اس پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ ہماری استدعا ہے کہ اس ایکٹ کو معطل کیا جائے یا اس پر عمل درآمد روکا جائے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ابھی نوٹس جاری کر رہے ہیں، آئندہ سماعت پر معاملے کا جائزہ لیں گے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔
Comments are closed on this story.