حکومت سپریم کورٹ کے 2 سینئر ججز کیخلاف ریفرنس پرغور کررہی ہے، رانا ثنا اللہ کا انکشاف
**مشیروزیراعظم رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کے خلاف ریفرنس پرغور کررہی ہے۔ ، دونوں سینئرججزکے طرزعمل پرکمیشن بنایاجاسکتاہے۔ **
آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں مشیر وزیراعظم رانا ثنا اللہ نے بڑا بیان دے دیا، کہا کہ 2 سینئر ججز کے خلاف ریفرنس بنایا جا سکتا ہے، یہ ججز ہر معاملے پر خط لکھ دیتے ہیں۔
میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان کا خط میڈیا کو پہلے مل جاتا ہے، اس عمل کو کہیں نہ کہیں مس کنڈکٹ سے جوڑا جا سکتا ہے۔
ججز کے رویے پر بات کرتے ہوئے مسلم ن لیگ پنجاب کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ دو سینئر ججز کی وجہ سے سپریم کورٹ میں معاملات نہیں چل رہے، وہ ہر معاملے میں خط لکھتے ہیں اور بائیکاٹ کرتے ہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اس ساری صورت حال میں اگر کسی نے اپنے آپ کو غیرجانبدار اورعلیحدہ رکھا تو وہ صرف چیف جسٹس پاکستان یحیٰی آفریدی ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے جج کو لانے کی ضرورت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی صوبدید پر ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ہم آئینی عدالت چاہتے تھے لیکن تحریک انصاف اور جے یو آئی کے مطالبے پرآئینی بنچ بنا، جلدی الیکشن پربات ہوسکتی ہے لیکن تحریک انصاف بات ہی نہیں کرتی۔ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے دھاندلی اورچھبیس نومبرکی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔
مشیر وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان خط لکھ کر فوج اور عدلیہ کے خلاف پروپگینڈا کررہے ہیں اگر مولانا فضل الرحمان مشترکہ اپوزیشن کا حصہ بنیں گے تو وہاں بھی ڈھنگ کی بات ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی ووٹ دیا تھا، مولانافضل الرحمان بہت بڑی شخصیت ہیں، مولانافضل الرحمان کسی کے ساتھ بھی نہیں کھڑےہوئے۔ میں اس حق میں ہوں کہ مولانامشترکہ اپوزیشن کاحصہ بنیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی کی معمول کی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات اپریل یا ستمبرمیں طے تھی، جو کسی وجہ سے نہیں ہوسکی اور اب ہو رہی ہے۔ معاملے کو بلاجواز اہمیت دی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس میں باقاعدہ یہ چیزیں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وکلا برادری کی ناراضی کی وجہ معلوم ہو جائے تو بالکل اس وجہ کو دور کیا جا سکتا ہے، سینیارٹی کے اصول کوپامال نہیں کیا گیا۔ آرٹیکل 200 میں لکھا ہے اسے پڑھنا چاہیے، اس میں کیوں ججز ٹرانسفرز سے متعلق یہ اختیار دیا گیا ہے؟ آئین چیف جسٹس کو ٹرانسفر کی اجازت دیتا ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجا اپنے سیاسی ایجنڈے کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں تو جو مرضی کہیں وہ انھیں حق ہے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ کیا آئین میں یہ بات ہے کہ ٹرانسفرکی وجہ بیان کی جائے؟
انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان ایک ذمہ دار انسان ہیں، چیف جسٹس کی غیرجانبدارکوچیلنج نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کے جج کا ہائیکورٹ میں تبادلہ نہیں ہوسکتا۔ موجودہ بینچ پی ٹی آئی کے کہنےپربنا ہے۔
راناثنااللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی ووٹ دیا تھا، مولانافضل الرحمان بہت بڑی شخصیت ہیں، مولانافضل الرحمان کسی کے ساتھ بھی نہیں کھڑےہوئے۔ میں اس حق میں ہوں کہ مولانامشترکہ اپوزیشن کاحصہ بنیں۔
مشیروزیراعظم نے کہا کہ ہم ڈیفالٹ سے نکل گئے ہیں، مشکل سے نکل رہے ہیں، پاکستان کومعاشی طورپرمستحکم ہونے کیلئے2سال چاہئیں۔
آج نیوز کے ے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں انھوں نے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جنرل باجوہ لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے قانون سازی چاہتے تھے۔
Comments are closed on this story.