Aaj News

منگل, مارچ 25, 2025  
24 Ramadan 1446  

مرتضٰی جتوئی کو ہتھکڑی؟

ان کی گرفتاری کے پس پردہ تلخ حقائق ہیں
شائع 21 فروری 2025 05:09pm

1983 میں ایم آرڈ ی تحریک کے سرخیل سابق وزیراعظم غلام مصطفٰی جتوئی کے بڑے فرزند اور سندھ سے ایم آر ڈی تحریک کی قیادت کرنے والے غلام مرتضی جتوئی کا تعارف کسی تعارف کا محتاج نہیں، رواں ماہ 17 فروی کو نوشہرو فیروز کی عدالت میں اپنی ضمانت کے آنے والے 70 سالہ مرتضٰی جتوئی کے ہاتھ میں جب ہتھکڑی لگی دیکھی تو ایم آر ڈی تحریک کے بعد کانوں میں رس گھولنے والا ایک اور نعرہ بندوقوں والے ڈرتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے، یاد آگیا۔

جی ہاں یہ وہ دور تھا جب بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی یعنی بھٹو کی بیٹی کے پیچھے پڑے تھے، زیڈ اے بھٹو کو کال کوٹھڑی میں دھکیلنے اور 4 اپریل 1979 کی علی الصبح ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ کا منظرنامہ یکسر بدل چکا تھا۔

ایک آمر کیخلاف ایم آر ڈی تحریک اپنے عروج پر تھی یہ وہی نوشہرو فیروز تھا کہ جہاں نیوجتوئی سے نکلنے والا سیکڑوں خواتین پر مشتمل ہجوم جب مورو شہر پہنچتا ہے تو مڈ بھیڑ میں 7 پولیس اہلکار مارے جاتے ہیں ان پولیس والوں کا کیس بھی اسوقت ایم آرڈی تحریک کو لیڈ کرنے والے غلام مصطفٰی جتوئی اور غلام مرتضٰی جتوئی پر درج کیا گیا تھا؟

تب بھی یہ وہی ہتھکڑی تھی جو شہید بھٹو سے جتوئی خاندان کے عہد وفا کی نشانی تھی مگر تاریخ کا دھارا جب بدلتا ہے تو کئی رخ دکھاتا ہے ہم صرف وہی دیکھتے ہیں جو بس ہمیں نظر آتا ہے فرق صرف اتنا ہے جب جتوئی خاندان شہید بھٹو کا الم اٹھائے ایک آمر سے نبردآزما تھا اور آج مرتضٰی جتوئی کو پیپلزپارٹی کے جبر کا سامنا ہے۔

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے سکرنڈ پولیس کی زیر حراست ایک نواز زرداری نامی شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے، سکرنڈ اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر مظہر زرداری ابتدائی پوسٹ مارٹم میں انکشاف کرتے ہیں کہ نواز زرداری کے جسم کے کئی حصوں پر تشدد کے نشانات ہیں یہ موت نہیں ایک مرڈر جو سکرنڈ پولیس کسٹڈی میں ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟

اپنے گناہ کا خود اعتراف کرنے والے نواز زرداری کا لاک اپ میں قتل زرداری قبیلے کیلئے بھی سوالیہ نشان تھا ؟ ماورائے آئین قتل کی یہ داستان ہمیں انتخابات کے دوران بھی دیکھنے میں نظر آتی ہے، نواب شاہ کی شہری کی نشست پر 3 افراد بے گناہ قتل کردیئے جاتے ہیں ؟ آج تک قاتل گرفتار نہیں ہوتے؟

گذشتہ انتخابات کے دوران نوشہروفیروز کی ہی ایک پولنگ پر فائرنگ کے دوران بلاول زرداری نامی شخص نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے؟ پولیس تلاشی کے دوران اس بات کی تصدیق کرچکی ہوتی ہے کہ وہاں موجود جتوئیوں کے گارڈز پولیس حصار میں ہیں اور پولیس افسران یہ رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ ان گارڈ کے پاس جو اسلحہ موجود ہے اس سے ایک گولی بھی فائر نہیں ہوئی ؟ مگر پھر بھی بلاول زرداری کے قتل کا مقدمہ بے گناہ جتوئی خانوادوں پر درج کرا دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ مقدمہ ہر اس شخص کے لیے ٹیسٹ کیس ہے جو شہید بھٹوز کے بعد بننے والی پیپلز پارٹی کا مخالف ہے، آج شہید بھٹوکا اصل وارث کون ہے ؟ اور کون گڑھی خدا بخش کی قبروں سے فائدہ اٹھانے والا یہ فسانے زبان زدعام ہیں ؟

پیپلزپارٹی کی تاریخ گواہ ہے کہ شہید بھٹوز نے اصولوں کے لیے عوام سے محبت میں ہمیشہ اپنی لاشوں سے قبرستان بھرے اور ان کے نام پر سیاست کرنے والے موقع پرستوں نے تجوریوں سے اپنے گھر بھرے ہیں۔

مرتضٰی جتوئی کی گرفتاری کا منظرنامہ کے پس پردہ ایسے تلخ حقائق ہیں جو سندھ دھرتی والوں سے اوجھل نہیں رہ سکتے؟ جی ہاں یہی وہ مرتضٰی جتوئی ہے جو جی ڈی اے کی تحریک میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔

سندھ صوبہ کا کوئی مسئلہ ہو وہ کسی محاذ پر پیچھے نہیں ہٹے آج بھی گرین پاکستان کے نام پر ہاریوں کا لہو نچوڑ کر سندھو دریا پر بننے والی چھ کینالز کے خلاف جی ڈی اے، فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر سراپا احتجاج ہیں۔

کڑے وقت میں مرتضٰی جتوئی کی گرفتاری پر جی ڈی اے صرف پریس کانفرنس تک ہی محدود ہے، مرتضی جتوئی راتوں رات نو شہرو فیروز سے نارا جیل حیدرآباد منتقل ہوچکے ہیں، صرف جی ڈی اے سے ہی سوال نہیں ایک سوال نواب شاہ کے باشندوں سے بھی بنتا ہے؟

مرتضٰی جتوئی اب ہم بے نظیر آباد والے بن چکے ہیں، ہم آپ سے شرمندہ ہیں آپ نے اس شہر کی تعمیر و ترقی، لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی ، بچیوں کے لیے میڈیکل کالج اور اسکولوں کے قیام، ریلوے اسٹیشن، ائیرپورٹ، صحت کے بنیادی مرکز سول اسپتال جیسی سہولیات دیں، آج ہم اس کا کفارہ بھی ادا نہ کرسکے۔

جی ڈی اے رہنما کو مرتضٰی جتوئی کو جب بی سیکشن لاکپ لایا جا رہا تھا، وہاں موجود پولیس افسران میں سے یقینا کوئی جتوئی دورمیں بھی بھرتی ہوا ہوگا۔۔

پاکستان

sindh

Arrested

politics

Grand Democratic Alliance (GDA)