بھارت کی جانب سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ممکن ہے، خواجہ آصف
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ممکن ہے، دو تین دن اہم ہیں، جنگ چھڑ جانے کی بات نہیں کی لیکن خطرہ موجود ہے، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے، چین اور خلیجی ممالک جنگ روکنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
پیر کو خبر رساں ادارے رؤٹرز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد بھارت کی طرف سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
اس شدت پسند حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد سے انڈین میڈیا اور سیاستدانوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیر میں شدت پسندی کی حمایت کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کشمیر پر دونوں ممالک دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں اور دونوں ہی اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
خواجہ آصف نے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم نے اپنی تیاری کر لی ہے کیونکہ اب یہ خطرہ بہت قریب محسوس ہو رہا ہے، ایسے حالات میں حکمتِ عملی کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کرنا ضروری تھے، جو کر لیے گئے ہیں۔‘
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ انڈیا کی جانب سے بیانات میں سختی آ رہی ہے اور پاکستان کی فوج نے حکومت کو ممکنہ انڈین حملے کے خدشے سے آگاہ کر دیا ہے تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ انہیں بھارتی کارروائی کے فوری خدشے کا یقین کیوں ہے۔
کشمیر حملے کے بعد بھارت نے 2 مشتبہ عسکریت پسندوں کو پاکستانی قرار دیا تھا جبکہ پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان ہائی الرٹ پر ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف اسی صورت میں کیا جائے گا جب ملک کے وجود کو براہِ راست خطرہ لاحق ہو۔
ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے، وزیر دفاع
دوسری جانب نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ جنگ چھڑ جانے کی بات نہیں کی لیکن خطرہ موجود ہے، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انٹرویو میں میرے بیان کا غلط مطلب لیا جارہا ہے، انٹرویو میں مجھ سے جنگ سے متعلق سوال ہوا تھا، میں نے کہا تھا اگلے دو تین دن اہم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انویسٹی گیشن سے متعلق بھارت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا، بھارت کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں، بھارت سمجھتا ہے کہ الزام میں صداقت ہے تو تحقیقات کرالے، ہماری غیر جانبدارانہ تحقیقات کی دعوت کا کوئی جواب نہیں آیا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ چند روز میں جنگ کا خطرہ ضرور موجود ہے لیکن کشیدگی کم بھی ہو سکتی ہے لیکن میں نے کہا تھا کہ کشیدگی کم بھی ہوسکتی ہے، چین اور خلیجی ممالک بھی جنگ روکنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کی سرحدوں پرفوج کھڑی ہے، ہماری تینوں مسلح افواج تیار ہیں، ملک کے ہر انچ کا دفاع کریں گے، انٹرنیشنل فورم پر بھارت پہلگام واقعے کی انویسٹی گیشن کرا لے، ہم پہلگام واقعے پر بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں۔
پلوامہ واقعے کے بعد باجوہ نے بانی کے ترلے کیے کہ ہمارے ساتھ بیٹھے لیکن وہ نہ بیٹھا،خواجہ آصف
ادھر ایک اور نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اپنی سرزمین سے بغیر شرط کے محبت ہونی چاہئے، آج ملک کے دفاع کا معاملہ ہے تو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اسے بلاؤ یا اسے بلاؤ، ملک کی بقا کے معاملے پر سیاسی فائدہ اٹھانا ناانصافی ہے، پلوامہ واقعے کے بعد باجوہ نے بانی کے ترلے کیے کہ ہمارے ساتھ بیٹھے لیکن وہ نہ بیٹھا۔
عمران خان سے مشاورت کرنے کے سوال پر خواجہ آصف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ماحول کو زہرآلود نہیں کرنا چاہتا، پلوامہ واقعے کے بعد میٹنگ عمران خان نے ہی بلائی تھی، انہوں نے اس وقت ہمارے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا، باجوہ نے عمران خان کے کتنے ترلے کیے کہ میٹنگ میں بیٹھو، اس وقت وہ ہمارے ساتھ بیٹھنے سے کترارہا تھا، اب یہ کیا لگتے ہیں یہ کہنے والے کہ اسے ساتھ بٹھاؤ، اب اسے کیا چاہ آگئی کہ ہمارے ساتھ بیٹھنا ضروری ہوگیا، یہ بندہ قید ہے اس کے نمائندے پارلیمنٹ میں موجود ہیں، پارٹی کو لیڈ کرنے والے قومی مسئلے کو سپورٹ کررہے ہیں، بانی کو ساتھ بٹھانے کی شرط بنالینا حب الوطنی کے منافی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد 23 اپریل کو سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو جواز بناتے ہوئے پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا تھا، جبکہ واہگہ بارڈرکی بندش اور اسلام باد میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات اپنے ملٹری اتاشی کو وطن واپس بلانے کے علاوہ پاکستان میں تعینات سفارتی عملے کی تعداد میں بھی کمی کردی تھی۔
بعد ازاں، 24 اپریل کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا پانی روکنا اعلان جنگ تصور کیا جائے گا اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت سے تجارت اور واہگہ بارڈر کی بندش کرنے کا فیصلہ کیا، علاوہ ازیں بھارتی ایئرلائنز کے لیے پاکستانی فضائی حدود بھی بند کردی گئی، اور بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔
26 اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان اور بھارت اپنے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا معاملہ خود ہی ’حل کر لیں گے‘۔
ایئر فورس ون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال پر سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ان دونوں ممالک کے درمیان ’ 1500 سال سے کشیدگی چل رہی ہے، تو آپ جانتے ہیں، یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ لیکن وہ کسی نہ کسی طرح اسے حل کر لیں گے، مجھے اس کا یقین ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی کشیدگی رہی ہے، لیکن ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔
Comments are closed on this story.