قومی اقتصادی کونسل نے 1 ہزار ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ منظور کرلیا
قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ مالی سال کے لیے 1 ہزار ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ منظور کر لیا ہے۔ اجلاس میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جب کہ برآمدات کا سالانہ ہدف 35 ارب ڈالر رکھنے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اہم اجلاس وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہوا، جس میں آئندہ مالی سال 2025-26 کے معاشی اہداف کی منظوری دے دی گئی۔
اجلاس میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز، وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی، وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے شرکت کی۔
اجلاس میں قومی ترقیاتی پلان، پی ایس ڈی پی، میکرو اکنامک اہداف کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں نئے مالی سال کی معاشی شرح نمو، زراعت، صنعت، سروسز سیکٹر کے اہداف کی منظوری سے متعلق مشاورت کی گئی۔
نئے وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17,500 ارب روپے مقرر کیے جانے کا تخمینہ
پلاننگ کمیشن ذرائع کے مطابق قومی اقتصادی کونسل سے 1 ہزار ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی گئی، جبکہ این ای سی سے آئندہ مالی سال کیلئے 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ ہدف منظور کیا گیا۔
اجلاس میں بلوچستان میں این 25 کیلئے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہوئے 120 ارب کی بجائے 100 ارب روپے کا پیکج منظور ہوا، اجلاس میں برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر مقرر کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔
قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کا اعلامیہ جاری
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا، جس کے مطابق اجلاس میں 6 نکاتی ایجنڈا کی اتفاق رائے سے منظوری دی گئی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں رواں مالی سال کے دوران ملکی معیشت کی کارکردگی سے متعلق نظر ثانی شدہ اشاریے پیش کیے گئے، رواں مالی سال میں 3483 بلین روپے سالانہ قومی ترقیاتی پروگرام پرخرچ کیے جا رہے ہیں، جس میں 1100 بلین وفاق جبکہ 2383 بلین روپے صوبوں کا حصہ ہے۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں قومی پیداوار (GDP) کی موجودہ شرح نمو 2.7 فیصد کے مقابلے میں آئندہ مالی سال کے لیے 4.2 فیصد شرح نمو کا ہدف مقرر کیا گیا، جولائی 2024 سے اپریل 2025 کے دوران ترسیلات زر میں 30.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو معاشی استحکام کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس پہلی مرتبہ مثبت رہا ہے جبکہ رواں مالی سال میں مالیاتی خسارہ کم ہو کر مجموعی قومی پیداوارکا 2.6 فیصد رہا، پرائمری بیلنس بڑھ کر مجموعی قومی پیداوار کا 3 فیصد رہا۔
معاشی بہتری کے اثرات ظاہر کرتے ہوئے بریفنگ میں کہا گیا کہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث پالیسی ریٹ بتدریج کم ہو کر 11 فیصد تک آ چکا ہے جبکہ مئی 2025 تک نجی شعبے کی ترقی کے لیے قرضوں کا حجم بڑھ کر 681 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ مالی سال 2024-25 کے دوران مجموعی قومی پیداوار کا حجم 114 ٹریلین روپے یا 411 ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں سال 2025-26 کے سالانہ ترقیاتی پلان اور 2024 سے 2029 تک کے 13ویں پانچ سالہ منصوبے کی بھی منظوری دی گئی۔
ساتھ ہی حکومت کے معاشی وژن کے تحت تیار کردہ ”اڑان پاکستان فریم ورک“ کو بھی باضابطہ منظوری دے دی گئی، جو ملک کو اقتصادی خود کفالت کی طرف لے جانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تصور کیا جا رہا ہے۔
بھارت کا پاکستان کے خلاف حالیہ بیانیہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، وزیراعظم
دوسری جانب قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس کے شرکا کو معرکہ حق میں فتح پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاک افواج کی پیشہ ورانہ مہارت سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو فتح سے نوازا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کا پاکستان کے خلاف حالیہ بیانیہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، جس سے خطے میں امن و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں، عوام ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے بھارت کے خلاف یکجا ہیں، بھارت کی پاکستان کو آبی وسائل سے محروم کرنے کی دھمکیاں نا قابل قبول ہیں۔
شہباز شریف کہا کہنا تھا کہ آبی وسائل کے تحفظ کی جد وجہد میں بھی انشاء اللہ بھارت کوشکست دیں گے، تمام وزرائے اعلیٰ سے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے مشاورت کی جائے گی، وفاق اورصوبے مل کر پاکستان کے آبی وسائل کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں حالیہ معاشی استحکام مشترکہ کاوشوں کی بدولت ممکن ہوا، ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، زرعی شعبہ ملکی زرمبادلہ میں اضافے کے لیے مرکزی کردار ادا کرتا ہے، زرعی پیداوارمیں بتدریج اضافے کے لیے حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے۔
ترقیاتی بجٹ میں بڑے انفراسٹرکچر اور سماجی منصوبوں کے لیے فنڈز مختص
وفاقی حکومت نے وزارت آبی وسائل کے لیے 147 ارب روپے، داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے 20 ارب، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 35 ارب، مہمند ڈیم کے لیے 35.7 ارب اور کراچی بلک واٹر سپلائی کے لیے 8.2 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ کراچی کے کے-فور منصوبے کے لیے 9.4 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ایس آئی ایف سی کے لیے 50 کروڑ، سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے 4.7 ارب، اسپارکو کے لیے 4 ارب جبکہ پارلیمنٹرین اسکیموں کے لیے 50 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے لیے 2.7 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے لیے 302 ارب، ڈی جی خان این-55 منصوبے کے لیے 11.4 ارب، ہوشاب-خضدار ایم-8 سیکشن کے لیے 7 ارب، خضدار-کچلاک، کراچی-کوئٹہ اور کچلاک-چمن سیکشن کے لیے علیحدہ علیحدہ 40، 40 ارب جبکہ حیدرآباد-سکھر موٹروے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وزارت دفاع کے لیے 11.5 ارب، نیو گوادر ایئرپورٹ کے لیے 4 ارب، تعلیم کے لیے 19.2 ارب، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے دانش اسکولوں کے لیے 9 ارب، وزیراعظم یوتھ اسکل پروگرام کے لیے 4.3 ارب اور خصوصی علاقوں و صوبوں کے لیے 16.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے لیے محض 55 کروڑ، سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 47.4 ارب، سیلاب متاثرہ علاقوں کے لیے 20 ارب، کراچی انڈسٹریل ایریا کی سڑکوں کے لیے 2.5 ارب، سندھ کوسٹل ہائی وے کے لیے 4 ارب، نواب شاہ-رانی پور ہائی وے، سانگھڑ این-5 کے لیے 6،6 ارب، بلوچستان کے لیے 93 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 70.4 ارب، آزاد جموں و کشمیر کے لیے 45 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 37 ارب، ہائر ایجوکیشن کے 140 منصوبوں کی فنڈنگ کے لیے 45 ارب، وزارت آئی ٹی کے لیے 13.5 ارب، کراچی آئی ٹی پارک کے لیے 4 ارب، اسلام آباد ٹیکنالوجی پارک کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وزارت داخلہ کے 16 منصوبوں کے لیے 11 ارب، سیف سٹی اسلام آباد کے لیے 3 ارب، نادرا ڈیجیٹل اکنامی منصوبے کے لیے 2.5 ارب، اسلام آباد ڈویلپمنٹ پیکج کے لیے 2 ارب، ایچ-16 ماڈل جیل کے لیے 1.1 ارب، وزارت قانون کے لیے 1.7 ارب، جی-10 کورٹس فیسلیٹیشن سینٹر کے لیے 1.1 ارب، وزارت میری ٹائم کے لیے 3.3 ارب، گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صحت کے منصوبوں کے لیے 15.3 ارب، جناح میڈیکل کمپلیکس کراچی میں قائداعظم ہیلتھ ٹاور کے لیے 5 ارب، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے لیے 4.7 ارب، وزارت منصوبہ بندی کے لیے 12.42 ارب، سیلاب زدہ بلوچستان کے لیے 8 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
وزارت توانائی کے لیے 104 ارب، این ٹی ڈی سی کی بہتری کے لیے 16 ارب، داسو ٹرانسمیشن لائن کے لیے 16 ارب، رحیم یار خان-بہاولپور 220 کے وی لائن کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ریلوے کے لیے مجموعی طور پر 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں تھرکول ریلوے لائن کے لیے 9.3 ارب، ریلوے کارگو، بوگیوں اور کوچز کی خریداری کے لیے 7 ارب روپے شامل ہیں۔
وزارت توانائی کیلئے 104 ارب اور این ٹی ڈی سی کا نظام بہتربنانے کیلئے 16 ارب روپے ترقیاتی بجٹ مختص کیے گئے۔
Comments are closed on this story.